محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
تمام قسطیں یہاں ملاحظہ فرمائیں۔
دسویں قسط:
محترم قارئین!
پچھلی قسط میں ہم نے ’’فعولن فعولن فعولن فعولن‘‘ کے وزن پر جملے بنانے کی مشق کی اور اسے مختلف انداز سے سیکھا ہے، اب اس قسط میں ہم ان شاء اللہ تعالیٰ ’’فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن‘‘ کے وزن پر جملے بنانے کی مشق کریں گے۔
اس کے لیے سب سے پہلے ہم فاعلن کے وزن پر الفاظ جمع کرلیتے ہیں:
مصطفی… رُشد کی… بہتریں… شمع ہیں… مجتبیٰ… ہیں مِرے… دین کے… رہنما… ختم اب… گرمیوں… کی ہوئیں… چھٹیاں…مدرسے… جائیں گے… روز اب… آپ ہم
اب انھیں باہم جوڑ لیتے ہیں:
(۱) مصطفی رُشد کی بہتریں شمع ہیں
(۲) مجتبیٰ ہیں مرے دین کے رہنما
(۳) ختم اب گرمیوں کی ہوئیں چھٹیاں
(۴) مدرسے جائیں گے روز اب آپ ہم
یہ تو تھا بہت آسان انداز میں موزوں جملے بنانا، اب اسی وزن پر ان دو جملوں میں غور کریں:
(۵)وہ ہیں بدرالدجٰی، وہ ہیں شمس الضحیٰ
(۶)وہ سراپا ہدایت ہمارے لیے
ان جملوں کی ’’فاعلن‘‘ کے وزن پر تقطیع یوں ہوگی:
وہ ہِ بد… رُد دُجٰی… وہ ہِ شم… سُض ضُحٰی…
وہ سرا… پاہدا… یت ہما… رے لیے
شروع کی چار مثالوں میں ہر فاعلن کی جگہ ایک مکمل لفظ ہے، مگر پانچویں اور چھٹے جملے میں ہر فاعلن کی جگہ جو لفظ آرہا ہے وہ مکمل نہیں ہے، بل کہ ان میں الفاظ ٹوٹ رہے ہیں۔ دونوں طرح کی مثالیں دینے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے کہ ’’فاعلن‘‘ یا ’’فعولن‘‘ کی جگہ پورا لفظ آنا ضروری نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ آپ میں یہ مہارت کیسے پیدا ہو کہ آپ بھی ’’فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن‘‘ کے وزن پر جملے بنانے پر قادر ہوجائیں؟
اس کے لیے ہم ایک آسان طریقہ پیش کرتے ہیں:
ان چار لفظوں کو زیرِ لب کئی بار دہرائیں:۔۔۔ ۔۔۔’’کھٹکھٹا… کھٹکھٹا… کھٹکھٹا… کھٹکھٹا ‘‘
پھر ان چار لفظوں کو بار بار دہرائیں:۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ’’رب کا در… کھٹکھٹا… رب کا… در کھٹکھٹا‘‘
پھر ان چار لفظوں کو کچھ دیر تک دہرائیں:۔۔۔ ۔۔۔ ’’سب ملے… گا تجھے… رب کا در… کھٹکھٹا‘‘
اب انھی لفظوں کو آگے پیچھے کرکے دہرائیں:۔۔۔ ۔۔ ’’رب کا در… کھٹکھٹا… سب ملے… گا تجھے‘‘
امید ہے اب کچھ آسان لگ رہا ہوگا، اب خود سے کوئی جملہ اس وزن پر بنانے کی کوشش کریں، اگر کام یابی ہو تو بہت مبارک! ورنہ اوپر دیے گئے نسخے پر پھر عمل کریں۔
ایک اور بات یہ ذہن نشین کرلیں کہ اب آپ کی شاعری کا وہ مرحلہ آگیا ہے جو کافی وقت مانگتا ہے، لہٰذا چلتے پھرتے ان باتوں کو سوچنا اور ان اوزان کی مشق کرنا، ’’فعولن‘‘ اور ’’فاعلن‘‘ کے وزن پر الفاظ اور جملے سوچنا آپ کے لیے بہت مفید ثابت ہوگا۔ شرط صرف محنت ہے، مسلسل محنت۔
کام:
1۔ یہاں اساتذہ شعراء کا کلام ہے اسے مستقل اپنے مطالعے میں رکھیں۔
2۔ ’’فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن‘‘ اس وزن کے مطابق کم از کم بیس جملے لکھیں۔
3۔ ان چار جملوں میں غور کریں:
٭ختم ہونے لگی ہیں مِری چھٹیاں ٭یہ شمارہ ہے اک علم کا آسماں
٭چاند، سورج، ستاروں کی ہے کہکشاں ٭بادلوں میں چمکنے لگیں بجلیاں
ان چاروں جملوں میں دو باتیں مشترک ہیں: ۱۔ چاروں ’’فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن‘‘کے وزن پر ہیں۔ ۲۔ چاروں میں ’’چھٹیاں‘‘، ’’آسماں‘‘، ’’کہکشاں‘‘ اور ’’بجلیاں‘‘ قوافی ہیں۔ البتہ چاروں جملے مطلب اور معنی کے لحاظ سے الگ الگ ہیں، آپ بھی ایسے کم از کم پانچ جملے بنائیں، جو ’’فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن‘‘کے وزن پر ہوں اور ان کا کوئی قافیہ بھی ہو۔
اس سلسلے کی نویں قسط کے جوابات کی کچھ غلطیوں کی نشان دہی:
٭لفظ مدرسہ ’’فاعلن‘‘ نہیں، بل کہ ’’فعولن‘‘ ہے۔
٭لفظ ’’شہر‘‘، ’’عِلْم‘‘ اور ’’رحم‘‘ کا وزن فاع(۱۲) ہے یعنی ہجائے بلند+ہجائے کوتاہ۔
٭لفظ پیارا ’’فعولن‘‘ نہیں، بل کہ ’’فعلن‘‘ ہے۔
٭لفظ ’’مزہ‘‘ کو ’’مزا‘‘ لکھنا غلط ہے۔
٭ لفظ’’کیا‘‘ دو معنی میں استعمال ہوتا ہے، ایک سوال کے لیے، اس لحاظ سے یہ ایک ہجائے بلند ہے اور دوسرا کرنا سے ماضی کے لیے، اس لحاظ سے یہ ’’فعو‘‘(۲۱) ہے، یعنی ہجائے کوتاہ+ ہجائے بلند۔
٭لفظ ’’طرف‘‘ میں ’’ر‘‘ پر زبر ہے۔
٭لفظ بزرگ فعول ہے نہ کہ فعلن، یعنی ’’ب‘‘ اور ’’ز‘‘ دونوں پر پیش ہے اور ’’ر‘‘ اور ’’گ‘‘ دونوں ساکن ہیں۔
٭لفظ ’’فرمایا‘‘ کا آخر کا الف گرانا ٹھیک نہیں۔
٭لفظ ’’مال‘‘ کا الف گرانا بھی درست نہیں۔
٭لفظ چنبیلی ’’فعولن‘‘ نہیں، بل کہ ’’مفعولن‘‘ ہے۔
٭لفظ ’’عمر‘‘(زندگی) فاع(۱۲) ہے اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کا نام ’’عمر‘‘ فعو(۲۱) ہے۔
٭لفظ ’’کیوں‘‘ ایک ہجائے بلند(۲) ہے۔
الحمدللہ بندۂ ناچیز کی کتاب "آؤ ، شاعری سیکھیں" کتابی شکل میں شائع ہوگئی ہے۔
اگلی قسط
دسویں قسط:
محترم قارئین!
پچھلی قسط میں ہم نے ’’فعولن فعولن فعولن فعولن‘‘ کے وزن پر جملے بنانے کی مشق کی اور اسے مختلف انداز سے سیکھا ہے، اب اس قسط میں ہم ان شاء اللہ تعالیٰ ’’فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن‘‘ کے وزن پر جملے بنانے کی مشق کریں گے۔
اس کے لیے سب سے پہلے ہم فاعلن کے وزن پر الفاظ جمع کرلیتے ہیں:
مصطفی… رُشد کی… بہتریں… شمع ہیں… مجتبیٰ… ہیں مِرے… دین کے… رہنما… ختم اب… گرمیوں… کی ہوئیں… چھٹیاں…مدرسے… جائیں گے… روز اب… آپ ہم
اب انھیں باہم جوڑ لیتے ہیں:
(۱) مصطفی رُشد کی بہتریں شمع ہیں
(۲) مجتبیٰ ہیں مرے دین کے رہنما
(۳) ختم اب گرمیوں کی ہوئیں چھٹیاں
(۴) مدرسے جائیں گے روز اب آپ ہم
یہ تو تھا بہت آسان انداز میں موزوں جملے بنانا، اب اسی وزن پر ان دو جملوں میں غور کریں:
(۵)وہ ہیں بدرالدجٰی، وہ ہیں شمس الضحیٰ
(۶)وہ سراپا ہدایت ہمارے لیے
ان جملوں کی ’’فاعلن‘‘ کے وزن پر تقطیع یوں ہوگی:
وہ ہِ بد… رُد دُجٰی… وہ ہِ شم… سُض ضُحٰی…
وہ سرا… پاہدا… یت ہما… رے لیے
شروع کی چار مثالوں میں ہر فاعلن کی جگہ ایک مکمل لفظ ہے، مگر پانچویں اور چھٹے جملے میں ہر فاعلن کی جگہ جو لفظ آرہا ہے وہ مکمل نہیں ہے، بل کہ ان میں الفاظ ٹوٹ رہے ہیں۔ دونوں طرح کی مثالیں دینے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے کہ ’’فاعلن‘‘ یا ’’فعولن‘‘ کی جگہ پورا لفظ آنا ضروری نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ آپ میں یہ مہارت کیسے پیدا ہو کہ آپ بھی ’’فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن‘‘ کے وزن پر جملے بنانے پر قادر ہوجائیں؟
اس کے لیے ہم ایک آسان طریقہ پیش کرتے ہیں:
ان چار لفظوں کو زیرِ لب کئی بار دہرائیں:۔۔۔ ۔۔۔’’کھٹکھٹا… کھٹکھٹا… کھٹکھٹا… کھٹکھٹا ‘‘
پھر ان چار لفظوں کو بار بار دہرائیں:۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ’’رب کا در… کھٹکھٹا… رب کا… در کھٹکھٹا‘‘
پھر ان چار لفظوں کو کچھ دیر تک دہرائیں:۔۔۔ ۔۔۔ ’’سب ملے… گا تجھے… رب کا در… کھٹکھٹا‘‘
اب انھی لفظوں کو آگے پیچھے کرکے دہرائیں:۔۔۔ ۔۔ ’’رب کا در… کھٹکھٹا… سب ملے… گا تجھے‘‘
امید ہے اب کچھ آسان لگ رہا ہوگا، اب خود سے کوئی جملہ اس وزن پر بنانے کی کوشش کریں، اگر کام یابی ہو تو بہت مبارک! ورنہ اوپر دیے گئے نسخے پر پھر عمل کریں۔
ایک اور بات یہ ذہن نشین کرلیں کہ اب آپ کی شاعری کا وہ مرحلہ آگیا ہے جو کافی وقت مانگتا ہے، لہٰذا چلتے پھرتے ان باتوں کو سوچنا اور ان اوزان کی مشق کرنا، ’’فعولن‘‘ اور ’’فاعلن‘‘ کے وزن پر الفاظ اور جملے سوچنا آپ کے لیے بہت مفید ثابت ہوگا۔ شرط صرف محنت ہے، مسلسل محنت۔
کام:
1۔ یہاں اساتذہ شعراء کا کلام ہے اسے مستقل اپنے مطالعے میں رکھیں۔
2۔ ’’فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن‘‘ اس وزن کے مطابق کم از کم بیس جملے لکھیں۔
3۔ ان چار جملوں میں غور کریں:
٭ختم ہونے لگی ہیں مِری چھٹیاں ٭یہ شمارہ ہے اک علم کا آسماں
٭چاند، سورج، ستاروں کی ہے کہکشاں ٭بادلوں میں چمکنے لگیں بجلیاں
ان چاروں جملوں میں دو باتیں مشترک ہیں: ۱۔ چاروں ’’فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن‘‘کے وزن پر ہیں۔ ۲۔ چاروں میں ’’چھٹیاں‘‘، ’’آسماں‘‘، ’’کہکشاں‘‘ اور ’’بجلیاں‘‘ قوافی ہیں۔ البتہ چاروں جملے مطلب اور معنی کے لحاظ سے الگ الگ ہیں، آپ بھی ایسے کم از کم پانچ جملے بنائیں، جو ’’فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن‘‘کے وزن پر ہوں اور ان کا کوئی قافیہ بھی ہو۔
اس سلسلے کی نویں قسط کے جوابات کی کچھ غلطیوں کی نشان دہی:
٭لفظ مدرسہ ’’فاعلن‘‘ نہیں، بل کہ ’’فعولن‘‘ ہے۔
٭لفظ ’’شہر‘‘، ’’عِلْم‘‘ اور ’’رحم‘‘ کا وزن فاع(۱۲) ہے یعنی ہجائے بلند+ہجائے کوتاہ۔
٭لفظ پیارا ’’فعولن‘‘ نہیں، بل کہ ’’فعلن‘‘ ہے۔
٭لفظ ’’مزہ‘‘ کو ’’مزا‘‘ لکھنا غلط ہے۔
٭ لفظ’’کیا‘‘ دو معنی میں استعمال ہوتا ہے، ایک سوال کے لیے، اس لحاظ سے یہ ایک ہجائے بلند ہے اور دوسرا کرنا سے ماضی کے لیے، اس لحاظ سے یہ ’’فعو‘‘(۲۱) ہے، یعنی ہجائے کوتاہ+ ہجائے بلند۔
٭لفظ ’’طرف‘‘ میں ’’ر‘‘ پر زبر ہے۔
٭لفظ بزرگ فعول ہے نہ کہ فعلن، یعنی ’’ب‘‘ اور ’’ز‘‘ دونوں پر پیش ہے اور ’’ر‘‘ اور ’’گ‘‘ دونوں ساکن ہیں۔
٭لفظ ’’فرمایا‘‘ کا آخر کا الف گرانا ٹھیک نہیں۔
٭لفظ ’’مال‘‘ کا الف گرانا بھی درست نہیں۔
٭لفظ چنبیلی ’’فعولن‘‘ نہیں، بل کہ ’’مفعولن‘‘ ہے۔
٭لفظ ’’عمر‘‘(زندگی) فاع(۱۲) ہے اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کا نام ’’عمر‘‘ فعو(۲۱) ہے۔
٭لفظ ’’کیوں‘‘ ایک ہجائے بلند(۲) ہے۔
الحمدللہ بندۂ ناچیز کی کتاب "آؤ ، شاعری سیکھیں" کتابی شکل میں شائع ہوگئی ہے۔
اگلی قسط
آخری تدوین: