محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
تمام قسطیں یہاں ملاحظہ فرمائیں۔
ساتویں قسط:
محترم قارئینِ کرام…! …کیسے گزر رہے ہیں صبح و شام…خوب چل رہا ہے نا زندگی کا نظام… امید ہے مل رہا ہوگا راحت و آرام… مگر ذہن میں رکھنا قائدِ اعظم کا پیغام… کام ، کام اور کام… ہم بھی یہی کہیں گے سرِ عام… زندگی ہے محنت کے بغیر ناتمام۔
پچھلی قسط میں معلوم ہوا تھا کہ پانچ حرفی رکن کی دو قسمیں ہیں:
1۔فعولن
2۔ فاعلن
1۔’’فعولن‘‘ تو ہم نے مثالوں سے اچھی طرح سمجھ لیا تھا جیسے: ولادت، رضاعت، لڑکپن… جوانی… بڑھاپا… شہادت… قیامت… بہشتی… فرشتے… بہاریں… ہمیشہ… وغیرہ… وغیرہ۔
2۔ اب ذرا ’’فاعلن‘‘ کی خبر لیتے ہیں… یعنی ایک ’’ہجائے بلند‘‘ … پھر … ’’ہجائے کوتاہ‘‘… پھر … ’’ہجائے بلند‘‘۔ جیسے: بچپنا … تربیت… نوجواں… طاقتیں… زندگی… برزخی… جنتی… نعمتیں… راحتیں… مستقل… تاابد…وغیرہ۔
ارے…! یہ آپ کی پیشانی پر اتنی سلوٹیں کہاں سے آگئیں؟ کیا کہا…؟ نہیں سمجھ میں آیا… مگر کیوں؟ ’’فعولن‘‘اور ’’فاعلن‘‘، ’’ہجائے بلند‘‘ اور ’’ہجائے کوتاہ‘‘ تو پچھلی قسطوں میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوچکے ہیں۔
اچھا اب سمجھ میں آیاکہ آپ کو سمجھ میں کیوں نہیں آیا، اب آپ کی سمجھ میں یقینا یہ نہیں آرہا ہوگا کہ ہماری سمجھ میں یہ کیسے آیا کہ وہ آپ کی سمجھ میں اس لیے نہیں آیا… نہیں آیا نا سمجھ میں؟ یہی تو ہم بھی کہہ رہے ہیں کہ آپ کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا اور ہماری سمجھ میں بھی صرف وہی آیا کہ جس کا سمجھنا ضروری تھی، ایسا کیوں ہوا کہ وہ ہماری سمجھ میں آگیا، مگر آپ کی سمجھ میں نہیں آیا؟ اس کی وجہ غالباً یہ ہوگی کہ:
یا تو آپ نے پچھلی قسطیں پڑھی ہی نہیں ہیں… یا پھر پڑھی تو ہیں، مگر سمجھے بغیر… یا سمجھ بھی لیا ہوگا ، مگر اس کی مشق نہیں کی ہوگی… یا مشق بھی کرلی ہوگی، مگر زیادہ وقت گزرنے پر ذہن سے نکل گیا ہوگا۔
اب آتے ہیں ’’فاعلن‘‘ کی طرف۔
’’فاعلن‘‘ (۲۱۲) کی چند مزید مثالیں:
جنوری … فروری… سرسری… کپکپی… مصطفی… مجتبیٰ… فاصلے… قافلے… استری… مستری… جستجو… گفتگو… روبرو… ہوبہو… بے وفا… بے سرا… باعمل… آج کل… لازمی… عارضی… اکتفا… انتہا… ملتوی… مقتدی۔
امید ہے اتنی مثالیں کافی ہوں گی، اگر صرف مثالوں کو دیکھ کر طبیعت میں جھنجھناہٹ اور جھنجھلاہٹ ہورہی ہے تو زیادہ تلملاہٹ اور گھبراہٹ کی ضرورت نہیں، بل کہ اس اکتاہٹ اور جھلّاہٹ کو دور کرنے کے لیے چہرے پر مسکراہٹ کی سجاوٹ کے ساتھ درجِ ذیل اشعار کو دلی لگاوٹ اور قلبی ترواٹ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں:
ہر شعر میں دو مصرعے ہیں۔۔۔۔
ہر مصرع میں چار ارکان ہیں۔۔۔۔ یعنی فاعلن، فاعلن، فاعلن، فاعلن۔
پہلے مصرع میں غور کریں: ’’بارشوں کی فضا عام ہے آج کل‘‘
بارشوں=فاعلن…
کی فضا=فاعلن…
عام ہے=فاعلن…
آج کل=فاعلن…
اسی طرح باقی تمام اشعار میں غور کرتے جائیں۔
وضاحت: اسی غور کرنے کو شاعری کی زبان میں ’’تقطیع‘‘ کہتے ہیں، یعنی اگر کوئی آپ سے کہے کہ اس نظم کے چھٹے شعر کی تقطیع کریں تو آپ اس کی تقطیع یوں پیش کریں گے:
کام ہے=فاعلن…
کام پے=فاعلن…
غامِ قا=فاعلن…
ئد ہمے=فاعلن…
ایک کام کی بات:
یاد رکھیں، اگر آپ کو ’’ہجائے بلند‘‘ اور ’’ہجائے کوتاہ‘‘ سمجھ میں آگیا اور آپ نے اس کی اتنی مشق کرلی کہ کسی بھی جملے میں غور کرکے آپ اس کے تمام ’’ہجائے بلند‘‘ اور ’’ہجائے کوتاہ‘‘ کو الگ الگ کرنے پر قادر ہوگئے تو وزنِ شعری آپ گویا آدھے سے زیادہ سیکھ گئے۔
اس کے لیے آپ اپنے ذوق و شوق سے چلتے پھرتے مختلف الفاظ میں صرف یہ غور کرنے کی عادت بنالیں کہ ان میں کتنے ’’ہجائے بلند‘‘ اور کتنے ’’ہجائے کوتاہ‘‘ ہیں۔
کام:
1۔ فاعلن(۲۱۲) کے وزن پر بیس الفاظ لکھیں۔
2۔ سَرسَری… کپکپی… ڈگڈگی… استری… آدمی
ان تمام الفاظ میں دو باتیں مشترک ہیں: ایک یہ کہ ہر لفظ ’’فاعلن‘‘ کے وزن پر ہے اور دوسرا یہ کہ ہر لفظ کے آخر میں ’’ی‘‘ ہے، آپ ایسے دس الفاظ مزید لکھیں۔
3۔ مندرجہ ذیل الفاظ کے ’’ہجائے بلند‘‘ اور ’’ہجائے کوتاہ‘‘ کے لحاظ سے نمبر نکالیں:
دل… وفا… شام… شمع… کرم… عزم… بلبل… قریب… درخت… عَرَبی… عُلَما… طُلَّاب… مناسب… کہکشاں… آسمان… منتظمہ… انتظامیہ… نظم… قمَر… عمْر۔
جیسے: شمع=۱۲… کہکشاں=۲۱۲
4۔ پچھلی تمام اقساط کا خلاصہ لکھیں، جس میں آپ یہ بتائیں کہ پہلی قسط سے موجودہ قسط تک آپ نے کیا کیا سمجھا۔
الحمدللہ بندۂ ناچیز کی کتاب "آؤ ، شاعری سیکھیں" کتابی شکل میں شائع ہوگئی ہے۔
اگلی قسط
ساتویں قسط:
محترم قارئینِ کرام…! …کیسے گزر رہے ہیں صبح و شام…خوب چل رہا ہے نا زندگی کا نظام… امید ہے مل رہا ہوگا راحت و آرام… مگر ذہن میں رکھنا قائدِ اعظم کا پیغام… کام ، کام اور کام… ہم بھی یہی کہیں گے سرِ عام… زندگی ہے محنت کے بغیر ناتمام۔
پچھلی قسط میں معلوم ہوا تھا کہ پانچ حرفی رکن کی دو قسمیں ہیں:
1۔فعولن
2۔ فاعلن
1۔’’فعولن‘‘ تو ہم نے مثالوں سے اچھی طرح سمجھ لیا تھا جیسے: ولادت، رضاعت، لڑکپن… جوانی… بڑھاپا… شہادت… قیامت… بہشتی… فرشتے… بہاریں… ہمیشہ… وغیرہ… وغیرہ۔
2۔ اب ذرا ’’فاعلن‘‘ کی خبر لیتے ہیں… یعنی ایک ’’ہجائے بلند‘‘ … پھر … ’’ہجائے کوتاہ‘‘… پھر … ’’ہجائے بلند‘‘۔ جیسے: بچپنا … تربیت… نوجواں… طاقتیں… زندگی… برزخی… جنتی… نعمتیں… راحتیں… مستقل… تاابد…وغیرہ۔
ارے…! یہ آپ کی پیشانی پر اتنی سلوٹیں کہاں سے آگئیں؟ کیا کہا…؟ نہیں سمجھ میں آیا… مگر کیوں؟ ’’فعولن‘‘اور ’’فاعلن‘‘، ’’ہجائے بلند‘‘ اور ’’ہجائے کوتاہ‘‘ تو پچھلی قسطوں میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوچکے ہیں۔
اچھا اب سمجھ میں آیاکہ آپ کو سمجھ میں کیوں نہیں آیا، اب آپ کی سمجھ میں یقینا یہ نہیں آرہا ہوگا کہ ہماری سمجھ میں یہ کیسے آیا کہ وہ آپ کی سمجھ میں اس لیے نہیں آیا… نہیں آیا نا سمجھ میں؟ یہی تو ہم بھی کہہ رہے ہیں کہ آپ کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا اور ہماری سمجھ میں بھی صرف وہی آیا کہ جس کا سمجھنا ضروری تھی، ایسا کیوں ہوا کہ وہ ہماری سمجھ میں آگیا، مگر آپ کی سمجھ میں نہیں آیا؟ اس کی وجہ غالباً یہ ہوگی کہ:
یا تو آپ نے پچھلی قسطیں پڑھی ہی نہیں ہیں… یا پھر پڑھی تو ہیں، مگر سمجھے بغیر… یا سمجھ بھی لیا ہوگا ، مگر اس کی مشق نہیں کی ہوگی… یا مشق بھی کرلی ہوگی، مگر زیادہ وقت گزرنے پر ذہن سے نکل گیا ہوگا۔
اب آتے ہیں ’’فاعلن‘‘ کی طرف۔
’’فاعلن‘‘ (۲۱۲) کی چند مزید مثالیں:
جنوری … فروری… سرسری… کپکپی… مصطفی… مجتبیٰ… فاصلے… قافلے… استری… مستری… جستجو… گفتگو… روبرو… ہوبہو… بے وفا… بے سرا… باعمل… آج کل… لازمی… عارضی… اکتفا… انتہا… ملتوی… مقتدی۔
امید ہے اتنی مثالیں کافی ہوں گی، اگر صرف مثالوں کو دیکھ کر طبیعت میں جھنجھناہٹ اور جھنجھلاہٹ ہورہی ہے تو زیادہ تلملاہٹ اور گھبراہٹ کی ضرورت نہیں، بل کہ اس اکتاہٹ اور جھلّاہٹ کو دور کرنے کے لیے چہرے پر مسکراہٹ کی سجاوٹ کے ساتھ درجِ ذیل اشعار کو دلی لگاوٹ اور قلبی ترواٹ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں:
بارشوں کی فضا عام ہے آج کل۔۔۔آگیا موسمِ ”آم“ ہے آج کل
راستوں میں بہت گندگی ہوگئی۔۔۔اس لیے ہر سڑک جام ہے آج کل
لوبیا ، ککڑیاں ، پیاز ، آلو ، مٹر۔۔۔سبزیوں کا بڑھا دام ہے آج کل
جاگنا رات بھر اور جگانا ہمیں۔۔۔مچھروں کا یہی کام ہے آج کل
آج کل منظرِ صبح ہے خوب رو۔۔۔دل ربا منظرِ شام ہے آج کل
کام ہے کام پیغامِ قائد ہمیں۔۔۔مقصدِ زیست آرام ہے آج کل
نام تو تھا محمد اسامہ ترا۔۔۔کیوں مگر سَرسَرؔی نام ہے آج کل
اس نظم میں سات اشعار ہیں۔۔۔راستوں میں بہت گندگی ہوگئی۔۔۔اس لیے ہر سڑک جام ہے آج کل
لوبیا ، ککڑیاں ، پیاز ، آلو ، مٹر۔۔۔سبزیوں کا بڑھا دام ہے آج کل
جاگنا رات بھر اور جگانا ہمیں۔۔۔مچھروں کا یہی کام ہے آج کل
آج کل منظرِ صبح ہے خوب رو۔۔۔دل ربا منظرِ شام ہے آج کل
کام ہے کام پیغامِ قائد ہمیں۔۔۔مقصدِ زیست آرام ہے آج کل
نام تو تھا محمد اسامہ ترا۔۔۔کیوں مگر سَرسَرؔی نام ہے آج کل
ہر شعر میں دو مصرعے ہیں۔۔۔۔
ہر مصرع میں چار ارکان ہیں۔۔۔۔ یعنی فاعلن، فاعلن، فاعلن، فاعلن۔
پہلے مصرع میں غور کریں: ’’بارشوں کی فضا عام ہے آج کل‘‘
بارشوں=فاعلن…
کی فضا=فاعلن…
عام ہے=فاعلن…
آج کل=فاعلن…
اسی طرح باقی تمام اشعار میں غور کرتے جائیں۔
وضاحت: اسی غور کرنے کو شاعری کی زبان میں ’’تقطیع‘‘ کہتے ہیں، یعنی اگر کوئی آپ سے کہے کہ اس نظم کے چھٹے شعر کی تقطیع کریں تو آپ اس کی تقطیع یوں پیش کریں گے:
کام ہے=فاعلن…
کام پے=فاعلن…
غامِ قا=فاعلن…
ئد ہمے=فاعلن…
ایک کام کی بات:
یاد رکھیں، اگر آپ کو ’’ہجائے بلند‘‘ اور ’’ہجائے کوتاہ‘‘ سمجھ میں آگیا اور آپ نے اس کی اتنی مشق کرلی کہ کسی بھی جملے میں غور کرکے آپ اس کے تمام ’’ہجائے بلند‘‘ اور ’’ہجائے کوتاہ‘‘ کو الگ الگ کرنے پر قادر ہوگئے تو وزنِ شعری آپ گویا آدھے سے زیادہ سیکھ گئے۔
اس کے لیے آپ اپنے ذوق و شوق سے چلتے پھرتے مختلف الفاظ میں صرف یہ غور کرنے کی عادت بنالیں کہ ان میں کتنے ’’ہجائے بلند‘‘ اور کتنے ’’ہجائے کوتاہ‘‘ ہیں۔
کام:
1۔ فاعلن(۲۱۲) کے وزن پر بیس الفاظ لکھیں۔
2۔ سَرسَری… کپکپی… ڈگڈگی… استری… آدمی
ان تمام الفاظ میں دو باتیں مشترک ہیں: ایک یہ کہ ہر لفظ ’’فاعلن‘‘ کے وزن پر ہے اور دوسرا یہ کہ ہر لفظ کے آخر میں ’’ی‘‘ ہے، آپ ایسے دس الفاظ مزید لکھیں۔
3۔ مندرجہ ذیل الفاظ کے ’’ہجائے بلند‘‘ اور ’’ہجائے کوتاہ‘‘ کے لحاظ سے نمبر نکالیں:
دل… وفا… شام… شمع… کرم… عزم… بلبل… قریب… درخت… عَرَبی… عُلَما… طُلَّاب… مناسب… کہکشاں… آسمان… منتظمہ… انتظامیہ… نظم… قمَر… عمْر۔
جیسے: شمع=۱۲… کہکشاں=۲۱۲
4۔ پچھلی تمام اقساط کا خلاصہ لکھیں، جس میں آپ یہ بتائیں کہ پہلی قسط سے موجودہ قسط تک آپ نے کیا کیا سمجھا۔
الحمدللہ بندۂ ناچیز کی کتاب "آؤ ، شاعری سیکھیں" کتابی شکل میں شائع ہوگئی ہے۔
اگلی قسط
آخری تدوین: