شاعری کی اِک طِفلانہ کاوش !!

جیا راؤ

محفلین
غزل

اُس نے کہا کہ لگتے ہیں گلشن بھی اب اداس
میں نے کہا کہ عشق میں تیرے خراب ہیں

اُس نے کہا کہ زیست کا حاصل یے کیا بتا
میں نے کہا وہی جو کچھ لمحے سراب ہیں

وہ پوچھتا ہے گل ہیں تمہیں کون سے پسند !
کہتی ہوں میں جو تیرے لبوں کے گلاب ہیں

اُس نے کہا کہ آنکھیں مجھے دی ہیں کیوں بھلا !
میں نے کہا کہ میرے یہ جام و شراب ہیں

کہتا ہے جان و دل تیرے آباد بھی ہوئے !
کہتی ہوں راستے بے گیاہ و آب ہیں

وہ ہنس کے پوچھتا ہے میرے روز و شب کا حال
میں دکھ سے سوچتی ہوں فقط اضطراب ہیں

اُس نے کہا کہ یاروں سے بھی دشمنی رہی !
میں نے کہا اِک دشمنِ جاں کے عذاب ہیں

اُس نے کہا کہ لگتا ہے تم عشق میں ہو گم
میں نے کہا نظر میں کئی مہ تاب ہیں

کہتا ہے اس طرح سے مجھے دیکھتی ہو کیوں !
کہتی ہوں میں کہ آنکھیں میری محو خواب ہیں

کہتا ہے کہ مژگاں تیری بھاتی ہیں کس لئے !
کہتی ہوں کہ رہتیں جو بہت زیرِ آب ہیں

وہ جھنجھلا کہ بولا کہ دل میں بسا ہے کون !
میں مسکرا کے بولی کہ رہتے جناب ہیں !

 

دوست

محفلین
بہت خوب۔ فنی اعتبار سے پرکھ تو اساتذہ ہی کرسکتے ہیں لیکن خیالات اچھے ہیں۔ مکالماتی غزل کی اچھی کوشش ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اچھی شاعری ہے۔
یہاں پوسٹ کرتی رہیں، اعجاز بھائی آپ کو صحیح سے مشورہ دیں گے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
السلام علیکم محترمہ جیا راؤ صاحبہ،

ماشاءاللہ بہت اچھی غزلِ مسلسل کہی آپ نے، بہت خوب۔

آپ مشق سخن جاری رکھیئے اور لکھتی رہیئے کہ اسی طرح آپ کے کام و کلام میں پرفیکشن آئے گی۔ نیچے جو شعر درج کر رہا ہوں وہ بحر کے مطابق وزن سے خارج ہیں اور موزوں ہونے کیلیئے نطرِ ثانی کے مقتضی ہیں۔



اُس نے کہا کہ زیست کا حاصل یے کیا بتا
میں نے کہا وہی جو کچھ لمحے سراب ہیں

'کچھ' کی وجہ سے مصرع بے وزن ہو رہا ہے، 'کہ' سے وزن میں آ سکتا ہے۔




کہتا ہے جان و دل تیرے آباد بھی ہوئے !
کہتی ہوں راستےبے گیاہ و آب ہیں

پہلے مصرعے میں 'تیرے' کی بجائے 'ترے' چاہیئے۔ دوسرا مصرعہ 'بے گیاہ' کی وجہ سے بے وزن ہے، تبدیلی چاہتا ہے۔






وہ ہنس کے پوچھتا ہے میرے روز و شب کا حال

میں دکھ سے سوچتی ہوں فقط اضطراب ہیں

'میرے' کی بجائے 'مرے' ہونا چاہیئے۔



اُس نے کہا کہ یاروں سے بھی دشمنی رہی !
میں نے کہا اِک دشمنِ جاں کے عذاب ہیں

'اک' کی وجہ سے مصرع بے وزن ہے، 'کہ' وغیرہ سے وزن پورا ہوسکتا ہے۔



اُس نے کہا کہ لگتا ہے تم عشق میں ہو گم
میں نے کہا نظر میں کئی مہ تاب ہیں

'مہ تاب' کی وجہ سے وزن میں کمی رہ رہی ہے اسے 'ماہتاب' کرنے سے وزن پورا ہو جاتا ہے۔



کہتا ہے اس طرح سے مجھے دیکھتی ہو کیوں !
کہتی ہوں میں کہ آنکھیں میری محو خواب ہیں

'میری' کی جگہ 'مری' مقتضی ہے۔



کہتا ہے کہ مژگاں تیری بھاتی ہیں کس لئے !
کہتی ہوں کہ رہتیں جو بہت زیرِ آب ہیں

'مژگاں' اور 'رہتیں' بے وزن ہیں، 'تیری' کی جگہ 'تری' ہونا چاہیئے۔ دونوں مصرعے تبدیلی چاہتے ہیں۔



جیسا کہ اوپر عرض کیا آپ مشق جاری رکھیں، اس سلسلے میں آپ نے جس بحر میں غزل کہی ہے اسی بحر میں کہی ہوئی غالب کی کچھ غزلیں لکھ رہا ہوں، انکا بغور مطالعہ کریں تا کہ اس بحر پر عبور حاصل ہو جائے۔

- ملتی ہے خوئے یار سے نار التہاب میں (اس غزل کے قوافی بھی وہی ہیں جو آپ کی غزل کے ہیں، اس میں ماہتاب کا قافیہ ملاحظہ کریں)۔

- کل کے لیے کر آج نہ خست شراب میں (بعینہ وہی زمین ہے جو اوپر والی غزل کی ہے)

- عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا

- دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں

- حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

- اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے

- آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے

- جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار

- دھمکی میں مر گیا جو نہ بابِ نبرد تھا

- دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں

وغیرہ وغیرہ

امید ہے کہ اس مرسلے سے برا نہیں مانیں گی۔

والسلام
 

جیا راؤ

محفلین
السلام علیکم محترمہ جیا راؤ صاحبہ،

ماشاءاللہ بہت اچھی غزلِ مسلسل کہی آپ نے، بہت خوب۔

آپ مشق سخن جاری رکھیئے اور لکھتی رہیئے کہ اسی طرح آپ کے کام و کلام میں پرفیکشن آئے گی۔ نیچے جو شعر درج کر رہا ہوں وہ بحر کے مطابق وزن سے خارج ہیں اور موزوں ہونے کیلیئے نطرِ ثانی کے مقتضی ہیں۔





'کچھ' کی وجہ سے مصرع بے وزن ہو رہا ہے، 'کہ' سے وزن میں آ سکتا ہے۔






پہلے مصرعے میں 'تیرے' کی بجائے 'ترے' چاہیئے۔ دوسرا مصرعہ 'بے گیاہ' کی وجہ سے بے وزن ہے، تبدیلی چاہتا ہے۔








'میرے' کی بجائے 'مرے' ہونا چاہیئے۔





'اک' کی وجہ سے مصرع بے وزن ہے، 'کہ' وغیرہ سے وزن پورا ہوسکتا ہے۔





'مہ تاب' کی وجہ سے وزن میں کمی رہ رہی ہے اسے 'ماہتاب' کرنے سے وزن پورا ہو جاتا ہے۔





'میری' کی جگہ 'مری' مقتضی ہے۔





'مژگاں' اور 'رہتیں' بے وزن ہیں، 'تیری' کی جگہ 'تری' ہونا چاہیئے۔ دونوں مصرعے تبدیلی چاہتے ہیں۔



جیسا کہ اوپر عرض کیا آپ مشق جاری رکھیں، اس سلسلے میں آپ نے جس بحر میں غزل کہی ہے اسی بحر میں کہی ہوئی غالب کی کچھ غزلیں لکھ رہا ہوں، انکا بغور مطالعہ کریں تا کہ اس بحر پر عبور حاصل ہو جائے۔

- ملتی ہے خوئے یار سے نار التہاب میں (اس غزل کے قوافی بھی وہی ہیں جو آپ کی غزل کے ہیں، اس میں ماہتاب کا قافیہ ملاحظہ کریں)۔

- کل کے لیے کر آج نہ خست شراب میں (بعینہ وہی زمین ہے جو اوپر والی غزل کی ہے)

- عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا

- دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں

- حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں

- اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے

- آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے

- جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار

- دھمکی میں مر گیا جو نہ بابِ نبرد تھا

- دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں

وغیرہ وغیرہ

امید ہے کہ اس مرسلے سے برا نہیں مانیں گی۔

والسلام

سب سے پہلے تو بہت بہت شکریہ کہ آپ کو یہ ادنٰی سی کاوش پسند آئی۔
"تری" ، "مری" اور "ماہ تاب" کی غلطیاں فقط اردو فونٹ میں لکھنے کی وجہ سے سرزد ہوئیں۔ چونکہ اب سے پہلے "رومن" میں لکھتی رہی ہوں تو اردو میں لکھتے وقت ان پر غور نہ کر سکی۔ آئندہ انشاءاللہ اس کا خیال رکھا جائے گا۔ نشاندہی کا بہت شکریہ۔
باقی جو وزن اور بحر کی غلطیوں کی نشاندہی آپ نےکی ہے وہ بھی یقینًا قابلِ غور ہیں۔
آپ کے قیمتی وقت اور کار آمد اصلاح کے لئے تہہ دل سے مشکور ہوں۔
امید ہے یونہی اصلاح جاری رکھتے ہوئے شکریہ کا موقع فراہم کریں گے۔
 

الف عین

لائبریرین
وارث نے میرا کام بچا دیا ہے۔ شکریہ وارث۔ جیا میں واقعی صلاحیتیں نظر آ رہی ہیں۔ مطالعے اور مشق سے اچھی شاعری کر سکتی ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
اب تو استادِ محترم نے بھی اپنی مہر ثبت کر دی ہے۔ اب آپ اپنے کلام سے نوازتی رہیں۔
 

جیا راؤ

محفلین
وارث نے میرا کام بچا دیا ہے۔ شکریہ وارث۔ جیا میں واقعی صلاحیتیں نظر آ رہی ہیں۔ مطالعے اور مشق سے اچھی شاعری کر سکتی ہیں۔

آپ اساتذہ کی رہنمائی رہی تو انشاءاللہ کچھ نہ کچھ سیکھ ہی جاؤں گی۔
حوصلہ افزائی کا شکریہ۔
 
Top