جیا راؤ
محفلین
غزل
اُس نے کہا کہ لگتے ہیں گلشن بھی اب اداس
میں نے کہا کہ عشق میں تیرے خراب ہیں
اُس نے کہا کہ زیست کا حاصل یے کیا بتا
میں نے کہا وہی جو کچھ لمحے سراب ہیں
وہ پوچھتا ہے گل ہیں تمہیں کون سے پسند !
کہتی ہوں میں جو تیرے لبوں کے گلاب ہیں
اُس نے کہا کہ آنکھیں مجھے دی ہیں کیوں بھلا !
میں نے کہا کہ میرے یہ جام و شراب ہیں
کہتا ہے جان و دل تیرے آباد بھی ہوئے !
کہتی ہوں راستے بے گیاہ و آب ہیں
وہ ہنس کے پوچھتا ہے میرے روز و شب کا حال
میں دکھ سے سوچتی ہوں فقط اضطراب ہیں
اُس نے کہا کہ یاروں سے بھی دشمنی رہی !
میں نے کہا اِک دشمنِ جاں کے عذاب ہیں
اُس نے کہا کہ لگتا ہے تم عشق میں ہو گم
میں نے کہا نظر میں کئی مہ تاب ہیں
کہتا ہے اس طرح سے مجھے دیکھتی ہو کیوں !
کہتی ہوں میں کہ آنکھیں میری محو خواب ہیں
کہتا ہے کہ مژگاں تیری بھاتی ہیں کس لئے !
کہتی ہوں کہ رہتیں جو بہت زیرِ آب ہیں
وہ جھنجھلا کہ بولا کہ دل میں بسا ہے کون !
میں مسکرا کے بولی کہ رہتے جناب ہیں !
اُس نے کہا کہ لگتے ہیں گلشن بھی اب اداس
میں نے کہا کہ عشق میں تیرے خراب ہیں
اُس نے کہا کہ زیست کا حاصل یے کیا بتا
میں نے کہا وہی جو کچھ لمحے سراب ہیں
وہ پوچھتا ہے گل ہیں تمہیں کون سے پسند !
کہتی ہوں میں جو تیرے لبوں کے گلاب ہیں
اُس نے کہا کہ آنکھیں مجھے دی ہیں کیوں بھلا !
میں نے کہا کہ میرے یہ جام و شراب ہیں
کہتا ہے جان و دل تیرے آباد بھی ہوئے !
کہتی ہوں راستے بے گیاہ و آب ہیں
وہ ہنس کے پوچھتا ہے میرے روز و شب کا حال
میں دکھ سے سوچتی ہوں فقط اضطراب ہیں
اُس نے کہا کہ یاروں سے بھی دشمنی رہی !
میں نے کہا اِک دشمنِ جاں کے عذاب ہیں
اُس نے کہا کہ لگتا ہے تم عشق میں ہو گم
میں نے کہا نظر میں کئی مہ تاب ہیں
کہتا ہے اس طرح سے مجھے دیکھتی ہو کیوں !
کہتی ہوں میں کہ آنکھیں میری محو خواب ہیں
کہتا ہے کہ مژگاں تیری بھاتی ہیں کس لئے !
کہتی ہوں کہ رہتیں جو بہت زیرِ آب ہیں
وہ جھنجھلا کہ بولا کہ دل میں بسا ہے کون !
میں مسکرا کے بولی کہ رہتے جناب ہیں !