شیرازخان
محفلین
شاعر رے شاعر تری کون سی کل سیدھی
سنا ہے جادو گر بھی پہلے وقتوں میں شاعر ہوا کرتے تھے شعبدہ بازوں اور مداریوں میں شاعرانہ جست و خیز تو قابل تعریف ہے ہی لیکن مہذب معاشروں میں ہمیشہ ہر اُوٹ پٹانگ بکنے اور دیوانوں سی باتیں اگلنے والے کو شاعر کے نام سے ہی منسوب کیا جاتا تھا۔اپنی محبوبہ کے حُسن کی تعریف کر کے داد لینے والا یہ بد بخت شاعرہی تو ہے۔ محترم جس کی محبت کا دعویدار ہوتا ہے اس کے انگ انگ کو بیاں کر کے واہ واہ بٹور کر محظوظ ہوتا ہے۔خواہ شراب کی بُو بھی نہ سونگی ہو مگر مضمون یوں باندھ دیا کہ گویا پیدا ہی شراب خانے میں ہوا ہو،اور ایک یہ کمبخت ساقی نامی کوئی آدمی ہے جسے صرف شاعر ہی ہی جانتا ہے ہم جیسے سادہ لوح پر تو ابھی تک یہ کُلی ہی نہیں کھل پائی کہ یہ ساقی صاحب ہیں کون، کہاں رہتے ہیں،کیا کرتے ہیں، ان کا کیا کردار ہے،ان کا ذکر پڑھ کر تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ساقی شاعری کی زباں میں کسی خاص ڈاکٹر کو کہا جاتا ہے۔
پھر بھی زبان و بیاں کی مبالغہ آرائی ہی سہی مگر بیچارے کی مظلومیت دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے دنیا بھر کی اذیتیں اسی کے کندھوں پہ کھڑی ہیں اور نازک مزاجی دیکھیے کے محبوب کی بے رخی سے گھر کے کونوں میںچھپ چھپ کے روتا ہے اور چھپ کر بھی صرف گھر والوں سے کیونکہ باہر تو اس نے برھا چڑھا کے بتانا ہے کہ وہ کیسے رویا ،کیوں رویا اور کس کے لئیے رویا ، مگر باقاعدہ طور پرتعجب تو اس کے ایسے نصاب کی تشہیر و ترویج کر کے اُترانے اور فخر کرنے پر ہوتا ہے۔ کیا عشق بازی،چھچھورے پن، شراب و کباب اور حُسن و ادا کو الفاظ کے ہیر پھیر میں لا کر جذبات و شہوت کو بھڑکانے کا نام شاعری ہے یا نین مٹکوں کے مسائل دن بدن بڑھ رہے ہیں اور صدیوں سے بڑھتے چلے آ رہے ہیںکہ امّت کی بد حالی اور بے گورو کفن ہونے کی نسبت ان کا پلڑا زیادہ بھاری ہے ،کیا ہر چھوٹا بڑا گناہ لکھنے کے لئیے ہمارے کندھوں پر فرشتے مقرر نہیں کیے گئے،کیا اس سستی شہرت اور خود پسندی میں دماغ اتنا خراب ہو جاتا ہے کہ اچھے بُرے کی تمیز کے ساتھ اللہ تک کا خوف نہیں رہتا کہ دن رات ایک کر کے ان ساری خُرافات کو چھپوا کرکوئی معرکہ سر کر لینے کے مترادف گردانا جاتا ہے۔
جس کو دو قافیے جوڑنے آ گئے بیٹھ گیا وہ عورت کی نسوانیت پر بے جا جارحیّت کرنے ،کیا شاعر کا کا مطلب وہ شخص ہے جو شرعی حدود سے آزاد ہو ''جس کی دُم پہ پاؤں رکھو وہی سر دار ہے ''کے مصداق فوجیں اتری ہوئی ہیں اپنی اپنی ڈفلی ہے اپنا اپنا راگ ، اس سرداری میں قلم کے ذریعے جو گُل کِھلائے جاتے ہیں ان کا احتساب کون کرے گا؟کہتے ہیں '' احساس ِ برتری احساسِ کمتری کی بد ترین صورت ہوتی ہے'' یہی وہ احساسِ کمتری ہے جو بعض اوقات شاعر کو اُکسا کر احساسِ برتری کا رحجان پیدا کرتی ہے بچپن میں ایک شعر پڑھا تھا جو اب جا کے سمجھ آیا ۔
بھولے سے مری سمت کوئی دیکھتا نہ تھا
چہرے پہ اک زخم لگانا پڑا مجھے
دوسروں کی عشقیہ سرگرمیوں کو اپنے الفاظ کا جامع پہنانااور اسے بیاں کرنے کا زخم اپنے چہرے پر لگا کر کچھ دیر محفل تو گرمائی جا سکتی ہے مگر اس کندن شہرت کا دورانیہ اُچھل کراُونچا قد کرنے سے زیادہ نہیں ہو گا،آخرت میں یہی بے ہودہ نعرے و دعوے ان کے گلے کا طوق بن کر ان کی شرمندگی کا باعث ہوں گے۔
زلف و گل کی روایات کو چھوڑکر
نسلِ نو کو مقدس خیالات دو
جس سے تعمیر ہوقوم کی اے شاعرو
اپنی ملت کو ایسے جذبات دو
سنا ہے جادو گر بھی پہلے وقتوں میں شاعر ہوا کرتے تھے شعبدہ بازوں اور مداریوں میں شاعرانہ جست و خیز تو قابل تعریف ہے ہی لیکن مہذب معاشروں میں ہمیشہ ہر اُوٹ پٹانگ بکنے اور دیوانوں سی باتیں اگلنے والے کو شاعر کے نام سے ہی منسوب کیا جاتا تھا۔اپنی محبوبہ کے حُسن کی تعریف کر کے داد لینے والا یہ بد بخت شاعرہی تو ہے۔ محترم جس کی محبت کا دعویدار ہوتا ہے اس کے انگ انگ کو بیاں کر کے واہ واہ بٹور کر محظوظ ہوتا ہے۔خواہ شراب کی بُو بھی نہ سونگی ہو مگر مضمون یوں باندھ دیا کہ گویا پیدا ہی شراب خانے میں ہوا ہو،اور ایک یہ کمبخت ساقی نامی کوئی آدمی ہے جسے صرف شاعر ہی ہی جانتا ہے ہم جیسے سادہ لوح پر تو ابھی تک یہ کُلی ہی نہیں کھل پائی کہ یہ ساقی صاحب ہیں کون، کہاں رہتے ہیں،کیا کرتے ہیں، ان کا کیا کردار ہے،ان کا ذکر پڑھ کر تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ساقی شاعری کی زباں میں کسی خاص ڈاکٹر کو کہا جاتا ہے۔
پھر بھی زبان و بیاں کی مبالغہ آرائی ہی سہی مگر بیچارے کی مظلومیت دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے دنیا بھر کی اذیتیں اسی کے کندھوں پہ کھڑی ہیں اور نازک مزاجی دیکھیے کے محبوب کی بے رخی سے گھر کے کونوں میںچھپ چھپ کے روتا ہے اور چھپ کر بھی صرف گھر والوں سے کیونکہ باہر تو اس نے برھا چڑھا کے بتانا ہے کہ وہ کیسے رویا ،کیوں رویا اور کس کے لئیے رویا ، مگر باقاعدہ طور پرتعجب تو اس کے ایسے نصاب کی تشہیر و ترویج کر کے اُترانے اور فخر کرنے پر ہوتا ہے۔ کیا عشق بازی،چھچھورے پن، شراب و کباب اور حُسن و ادا کو الفاظ کے ہیر پھیر میں لا کر جذبات و شہوت کو بھڑکانے کا نام شاعری ہے یا نین مٹکوں کے مسائل دن بدن بڑھ رہے ہیں اور صدیوں سے بڑھتے چلے آ رہے ہیںکہ امّت کی بد حالی اور بے گورو کفن ہونے کی نسبت ان کا پلڑا زیادہ بھاری ہے ،کیا ہر چھوٹا بڑا گناہ لکھنے کے لئیے ہمارے کندھوں پر فرشتے مقرر نہیں کیے گئے،کیا اس سستی شہرت اور خود پسندی میں دماغ اتنا خراب ہو جاتا ہے کہ اچھے بُرے کی تمیز کے ساتھ اللہ تک کا خوف نہیں رہتا کہ دن رات ایک کر کے ان ساری خُرافات کو چھپوا کرکوئی معرکہ سر کر لینے کے مترادف گردانا جاتا ہے۔
جس کو دو قافیے جوڑنے آ گئے بیٹھ گیا وہ عورت کی نسوانیت پر بے جا جارحیّت کرنے ،کیا شاعر کا کا مطلب وہ شخص ہے جو شرعی حدود سے آزاد ہو ''جس کی دُم پہ پاؤں رکھو وہی سر دار ہے ''کے مصداق فوجیں اتری ہوئی ہیں اپنی اپنی ڈفلی ہے اپنا اپنا راگ ، اس سرداری میں قلم کے ذریعے جو گُل کِھلائے جاتے ہیں ان کا احتساب کون کرے گا؟کہتے ہیں '' احساس ِ برتری احساسِ کمتری کی بد ترین صورت ہوتی ہے'' یہی وہ احساسِ کمتری ہے جو بعض اوقات شاعر کو اُکسا کر احساسِ برتری کا رحجان پیدا کرتی ہے بچپن میں ایک شعر پڑھا تھا جو اب جا کے سمجھ آیا ۔
بھولے سے مری سمت کوئی دیکھتا نہ تھا
چہرے پہ اک زخم لگانا پڑا مجھے
دوسروں کی عشقیہ سرگرمیوں کو اپنے الفاظ کا جامع پہنانااور اسے بیاں کرنے کا زخم اپنے چہرے پر لگا کر کچھ دیر محفل تو گرمائی جا سکتی ہے مگر اس کندن شہرت کا دورانیہ اُچھل کراُونچا قد کرنے سے زیادہ نہیں ہو گا،آخرت میں یہی بے ہودہ نعرے و دعوے ان کے گلے کا طوق بن کر ان کی شرمندگی کا باعث ہوں گے۔
زلف و گل کی روایات کو چھوڑکر
نسلِ نو کو مقدس خیالات دو
جس سے تعمیر ہوقوم کی اے شاعرو
اپنی ملت کو ایسے جذبات دو