طارق شاہ
محفلین
غزلِ
شاعر فتحپوری
چُھوتی ہے تِرے گیسو بَدمست ہَوا کیسے
ہم بھی تو ذرا دیکھیں اُٹھتی ہے گھٹا کیسے
گردِش میں تو جام آئے، معلوُم تو ہو جائے
میخانہ لُٹاتی ہے ساقی کی ادا کیسے
کیا راہِ محبّت میں کُچھ نقشِ قدم بھی ہیں
کھوئے ہُوئے پاتے ہیں منزِل کا پتا کیسے
نظریں تو اُٹھاؤ تم، دِل ہنْس کے بتا دے گا
گُلشن میں کِھلاتی ہے کلِیوں کو صبا کیسے
اِیمان ہُوا تازہ، جب حُسنِ بُتاں دیکھا
معلوُم نہ تھا مجھ کو مِلتا ہے خدا کیسے
افسوس! یہ تحفہ بھی، نِکلا نہ تِرے قابِل
جاں نذر کریں اپنی پابندِ وفا کیسے
شاعر! وہ اُٹھائیں تو پردہ رُخِ روشن سے
ثابت ہمیں کرنا ہے، ہوتے ہیں فِدا کیسے
شاعر فتحپوری
کانپور، انڈیا
شاعر فتحپوری
چُھوتی ہے تِرے گیسو بَدمست ہَوا کیسے
ہم بھی تو ذرا دیکھیں اُٹھتی ہے گھٹا کیسے
گردِش میں تو جام آئے، معلوُم تو ہو جائے
میخانہ لُٹاتی ہے ساقی کی ادا کیسے
کیا راہِ محبّت میں کُچھ نقشِ قدم بھی ہیں
کھوئے ہُوئے پاتے ہیں منزِل کا پتا کیسے
نظریں تو اُٹھاؤ تم، دِل ہنْس کے بتا دے گا
گُلشن میں کِھلاتی ہے کلِیوں کو صبا کیسے
اِیمان ہُوا تازہ، جب حُسنِ بُتاں دیکھا
معلوُم نہ تھا مجھ کو مِلتا ہے خدا کیسے
افسوس! یہ تحفہ بھی، نِکلا نہ تِرے قابِل
جاں نذر کریں اپنی پابندِ وفا کیسے
شاعر! وہ اُٹھائیں تو پردہ رُخِ روشن سے
ثابت ہمیں کرنا ہے، ہوتے ہیں فِدا کیسے
شاعر فتحپوری
کانپور، انڈیا