anwarjamal
محفلین
شال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر ؛ انور جمال انور
آسمان سے آتی چاند کی تیز روشنی اس کے کسی کام کی نہیں تھی سوائے اس کے کہ وہ گلی میں قطار بنائے مکانوں کے بند دروازے گن سکتی ، اس کے اپنے مکان کا دروازہ بند تھا ۔ اس بند دروازے کے پیچھے واقع اکلوتے کمرے میں اس کی بیٹی اپنے شوہر کا دل خوش کرنے میں مصروف تھی ۔
،، تم جلدی کر لو ناں ،،آج سردی بہت ہے اور بوڑھی ماں باہر گلی میں بیٹھی ہے ،، اس نے تصور میں اپنی بیٹی کی سرگوشی سنی اور مسکرائے بغیر نہ رہ سکی ۔
یقینا وہ یہی کہہ رہی ہو گی ،، اس نے خود سے کہا ،، دنیا میں میرا خیال کرنے والا کوئی بچا ہے تو یہی ایک بیٹی ہے ، بیٹے تو سارے شادی کر کے رخصت ہو گئے اور جاتے جاتے اس کا بڑا سا گھر بھی بیچ گئے۔۔۔
اماں تو اتنے بڑے گھر میں کیا کرے گی ، تیرے لیے تو ایک کمرا ہی کافی ہے ، گھر بیچنے سے ابا کی روح کو کچھ نہیں ہو گا تو ایسے ہی فضول باتیں کرتی ہے ،، لڑکے اسے جھڑک دیتے ،، آخر کار گھر بک گیا ۔۔ بیٹے ایک چھوٹا سا کمرا اس کے لیے چھوڑ گئے ۔۔۔ ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ آسمان سے آتی چاند کی تیز چاندنی میں بڑھیا کے لیے کوئی رومانس نہیں تھا مگر اندر کمرے میں دو جوان جسم ہم آغوش تھے ۔۔۔
،، تمہاری نوکری بہت بری ہے ، کئی کئی ہفتے تم گھر نہیں آتے ، بچے کتنا یاد کرتے ہیں تمہیں ،، جوان عورت نے اپنا آپ حوالے کر دینے کے بعد شکووں کی پٹاری کھول لی ۔۔
مرد بولا ،، اچھا ہے کہ میں گھر سے دور رہتا ہوں ، یہ ایک ہی کمرا ہے جس میں تم اپنی ماں کے ساتھ رہ رہی ہو ، میرے آنے سے انہیں پریشانی ہوتی ہے ، دیکھ لو اتنی سردی میں بھی وہ باہر گلی میں بیٹھنے پر مجبور ہیں ،،
تو کیا ہوا ،، ابھی تھوڑی دیر بعد ہم انہیں اندر بلا لیں گے ،، عورت نے جواب دیا ،، کیا کریں مجبوری ہے ،، جب تک قرضہ ادا نہیں ہو جاتا ہمیں اسی طرح گزارا کرنا پڑے گا ،،
اس وقت قرضے کی یاد مت دلاو ،، مرد نے ناگواری سے کہا اور عورت کو بھینچ لیا ۔
۔۔۔ آسمان پر چاندچمک رہا تھا اور بڑھیا سردی سے کانپ رہی تھی ، آج وہ اپنی گرم شال اوڑھنا بھول گئی تھی ، وہ شال کئی برس پہلے اس کا شوہر ایک مہنگی مارکیٹ سے لایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ یہ شال وہ واحد چیز تھی جسے اس کے بوڑھے شوہر نے تحفہ کہہ کر اسے پیش کیا تھا ،،، پوری زندگی گزر جانے کے بعد صرف ایک تحفہ ۔۔ مگر پھر بھی اس تحفے کو پانے کے بعد اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا ۔ یوں جیسے اس کے جینے کا کوئی مقصد تھا تو وہ اس مقصد میں کامیاب ہو چکی تھی ۔۔ وہ تحفہ ۔۔ ایک اعتراف تھا ۔۔۔ ایک دلی اعتراف اس کی خدمات کے عوض ۔۔۔ وہ تحفہ بتا رہا تھا کہ اس کا شوہر اس سے خوش ہے ۔
ان دونوں نے اچھی یا بری جیسی بھی زندگی گزاری تھی مگر بہر حال آ خری عمر میں ایک دوسرے سے خوش تھے اور یہ سب سے اچھی بات تھی ۔۔
چاند چمک رہا تھا مگر اس کی چاندنی بڑھیا کے لیے اب کوئی معنی نہیں رکھتی تھی ۔۔ اپنے شوہر کے انتقال کے بعد پتہ نہیں میں کیوں زندہ ہوں ،، اس نے اداسی سے سوچا پھر اسے سہاگ رات سے اب تک کے سارے واقعات ایک ایک کر کے یاد آنے لگے ۔۔۔
۔۔۔ کمرے کی دیواریں یخ بستہ ہواوں کے سامنے سینہ تانے کھڑی تھیں یہی وجہ تھی کہ اندر دو جسم بے لباس ہونے کے باوجود بے فکر تھے ۔
قرضہ ادا ہوتے ہی ہم کم از کم تین کمروں کا گھر کرائے پر لیں گے ،، مرد نے مستقبل کے سنہرے خواب دیکھتے ہوئے کہا
کیوں ؟ تین کمرے کیوں ؟ عورت نے حیرانی سے پوچھا
ایک کمرے میں ہم سوئیں گے دوسرے میں بچے اور تیسرے کمرے میں تمہاری بوڑھی ماں ۔۔
کیا تم واقعی ایسا سوچ رہے ہو ؟ عورت نے خوش ہوتے ہوئے پوچھا
ہاں ،، مجھے ترس آتا ہے ان پر ،، اس نے کہا ،، کتنی محنت و مشقت سے انہوں نے اپنی اولاد کو پال پوس کر بڑا کیا مگر آج ان کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں سوچو اگر ہماری اولاد نے بھی ایسا کیا تو کیا ہو گا ۔۔۔۔
اچانک کمرے کا رومانی ماحول تفکرات سے اٹ گیا ۔۔ اس کی بیوی نے بے چین ہو کر شوہر کے سینے سے سر اٹھایا اور تب اسے کھونٹی سے ٹنگی ہوئی ماں کی شال نظر آئی ۔۔
ہائے اللہ ؛ وہ چونکی ،، یہ کیا ،، اماں شال کے بغیر ہی باہر بیٹھی ہے ، وہ بڑبڑائی ۔۔۔
اس کے شوہر نے بھی شال کی طرف دیکھا اور جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا ۔
ماں کو جلدی سے اندر بلاو ،، اس نے کپڑے پہنتے ہوئے کہا
تھوڑی دیر بعد دو گھبرائی ہوئی نگاہوں کے ساتھ عورت نے دروازہ کھولا
ماں اندر آجاو ،،،، تم نے شال کیوں نہیں لی ۔۔۔۔ اس نے پکار کر کہا
بڑھیا نے جواب نہ دیا تو وہ آگے بڑھی
ماں چلو ،،،، اس نے اس کا کاندھا ہلایا
بڑھیا ایک طرف لڑھک گئی ۔۔۔۔۔ وہ مر چکی تھی۔
______________________
انور
آسمان سے آتی چاند کی تیز روشنی اس کے کسی کام کی نہیں تھی سوائے اس کے کہ وہ گلی میں قطار بنائے مکانوں کے بند دروازے گن سکتی ، اس کے اپنے مکان کا دروازہ بند تھا ۔ اس بند دروازے کے پیچھے واقع اکلوتے کمرے میں اس کی بیٹی اپنے شوہر کا دل خوش کرنے میں مصروف تھی ۔
،، تم جلدی کر لو ناں ،،آج سردی بہت ہے اور بوڑھی ماں باہر گلی میں بیٹھی ہے ،، اس نے تصور میں اپنی بیٹی کی سرگوشی سنی اور مسکرائے بغیر نہ رہ سکی ۔
یقینا وہ یہی کہہ رہی ہو گی ،، اس نے خود سے کہا ،، دنیا میں میرا خیال کرنے والا کوئی بچا ہے تو یہی ایک بیٹی ہے ، بیٹے تو سارے شادی کر کے رخصت ہو گئے اور جاتے جاتے اس کا بڑا سا گھر بھی بیچ گئے۔۔۔
اماں تو اتنے بڑے گھر میں کیا کرے گی ، تیرے لیے تو ایک کمرا ہی کافی ہے ، گھر بیچنے سے ابا کی روح کو کچھ نہیں ہو گا تو ایسے ہی فضول باتیں کرتی ہے ،، لڑکے اسے جھڑک دیتے ،، آخر کار گھر بک گیا ۔۔ بیٹے ایک چھوٹا سا کمرا اس کے لیے چھوڑ گئے ۔۔۔ ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ آسمان سے آتی چاند کی تیز چاندنی میں بڑھیا کے لیے کوئی رومانس نہیں تھا مگر اندر کمرے میں دو جوان جسم ہم آغوش تھے ۔۔۔
،، تمہاری نوکری بہت بری ہے ، کئی کئی ہفتے تم گھر نہیں آتے ، بچے کتنا یاد کرتے ہیں تمہیں ،، جوان عورت نے اپنا آپ حوالے کر دینے کے بعد شکووں کی پٹاری کھول لی ۔۔
مرد بولا ،، اچھا ہے کہ میں گھر سے دور رہتا ہوں ، یہ ایک ہی کمرا ہے جس میں تم اپنی ماں کے ساتھ رہ رہی ہو ، میرے آنے سے انہیں پریشانی ہوتی ہے ، دیکھ لو اتنی سردی میں بھی وہ باہر گلی میں بیٹھنے پر مجبور ہیں ،،
تو کیا ہوا ،، ابھی تھوڑی دیر بعد ہم انہیں اندر بلا لیں گے ،، عورت نے جواب دیا ،، کیا کریں مجبوری ہے ،، جب تک قرضہ ادا نہیں ہو جاتا ہمیں اسی طرح گزارا کرنا پڑے گا ،،
اس وقت قرضے کی یاد مت دلاو ،، مرد نے ناگواری سے کہا اور عورت کو بھینچ لیا ۔
۔۔۔ آسمان پر چاندچمک رہا تھا اور بڑھیا سردی سے کانپ رہی تھی ، آج وہ اپنی گرم شال اوڑھنا بھول گئی تھی ، وہ شال کئی برس پہلے اس کا شوہر ایک مہنگی مارکیٹ سے لایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ یہ شال وہ واحد چیز تھی جسے اس کے بوڑھے شوہر نے تحفہ کہہ کر اسے پیش کیا تھا ،،، پوری زندگی گزر جانے کے بعد صرف ایک تحفہ ۔۔ مگر پھر بھی اس تحفے کو پانے کے بعد اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا ۔ یوں جیسے اس کے جینے کا کوئی مقصد تھا تو وہ اس مقصد میں کامیاب ہو چکی تھی ۔۔ وہ تحفہ ۔۔ ایک اعتراف تھا ۔۔۔ ایک دلی اعتراف اس کی خدمات کے عوض ۔۔۔ وہ تحفہ بتا رہا تھا کہ اس کا شوہر اس سے خوش ہے ۔
ان دونوں نے اچھی یا بری جیسی بھی زندگی گزاری تھی مگر بہر حال آ خری عمر میں ایک دوسرے سے خوش تھے اور یہ سب سے اچھی بات تھی ۔۔
چاند چمک رہا تھا مگر اس کی چاندنی بڑھیا کے لیے اب کوئی معنی نہیں رکھتی تھی ۔۔ اپنے شوہر کے انتقال کے بعد پتہ نہیں میں کیوں زندہ ہوں ،، اس نے اداسی سے سوچا پھر اسے سہاگ رات سے اب تک کے سارے واقعات ایک ایک کر کے یاد آنے لگے ۔۔۔
۔۔۔ کمرے کی دیواریں یخ بستہ ہواوں کے سامنے سینہ تانے کھڑی تھیں یہی وجہ تھی کہ اندر دو جسم بے لباس ہونے کے باوجود بے فکر تھے ۔
قرضہ ادا ہوتے ہی ہم کم از کم تین کمروں کا گھر کرائے پر لیں گے ،، مرد نے مستقبل کے سنہرے خواب دیکھتے ہوئے کہا
کیوں ؟ تین کمرے کیوں ؟ عورت نے حیرانی سے پوچھا
ایک کمرے میں ہم سوئیں گے دوسرے میں بچے اور تیسرے کمرے میں تمہاری بوڑھی ماں ۔۔
کیا تم واقعی ایسا سوچ رہے ہو ؟ عورت نے خوش ہوتے ہوئے پوچھا
ہاں ،، مجھے ترس آتا ہے ان پر ،، اس نے کہا ،، کتنی محنت و مشقت سے انہوں نے اپنی اولاد کو پال پوس کر بڑا کیا مگر آج ان کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں سوچو اگر ہماری اولاد نے بھی ایسا کیا تو کیا ہو گا ۔۔۔۔
اچانک کمرے کا رومانی ماحول تفکرات سے اٹ گیا ۔۔ اس کی بیوی نے بے چین ہو کر شوہر کے سینے سے سر اٹھایا اور تب اسے کھونٹی سے ٹنگی ہوئی ماں کی شال نظر آئی ۔۔
ہائے اللہ ؛ وہ چونکی ،، یہ کیا ،، اماں شال کے بغیر ہی باہر بیٹھی ہے ، وہ بڑبڑائی ۔۔۔
اس کے شوہر نے بھی شال کی طرف دیکھا اور جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا ۔
ماں کو جلدی سے اندر بلاو ،، اس نے کپڑے پہنتے ہوئے کہا
تھوڑی دیر بعد دو گھبرائی ہوئی نگاہوں کے ساتھ عورت نے دروازہ کھولا
ماں اندر آجاو ،،،، تم نے شال کیوں نہیں لی ۔۔۔۔ اس نے پکار کر کہا
بڑھیا نے جواب نہ دیا تو وہ آگے بڑھی
ماں چلو ،،،، اس نے اس کا کاندھا ہلایا
بڑھیا ایک طرف لڑھک گئی ۔۔۔۔۔ وہ مر چکی تھی۔
______________________
انور