طارق شاہ
محفلین
شامِ رنگیں
حفیظ جالندھری
پچّھم کے در پہ سُورج بِستر جما رہا ہے
رنگین بادلے میں چہرہ چُھپا رہا ہے
کِرنوں نے رنگ ڈالا بادل کی دھارِیوں کو
پھیلا دِیا فلک پر گوٹے کِناریوں کو
عکسِ شَفَق نے کی ہے اِس طرح زرفشانی
گُھل مِل کے بہ رہے ہیں ندی میں آگ پانی
اوڑھے سِیہ دوپٹّے سرسبز وادِیوں نے
زیور اُتار ڈالے گُلزار زادِیوں نے
چھایا ہے تھوڑا تھوڑا پیروں تلے انْدھیرا
چڑیوں نے کھیت چھوڑا لینے چلیں بَسیرا
کلیوں کے قہقہوں سے معمُور ہیں ہَوائیں
پریوں کی لورِیاں ہیں یہ رس بھری صدائیں
لپٹی ہُوئی ہے نیندیں کیف آفرِیں ہَوا میں
خاموشِیوں کی لہریں اُٹھنے لگیں فِضا میں
گُم ہو چلی ہے دُنیا بِکھرے ہُوئے سکوُں میں
دِن غرق ہو رہا ہے چُپ چاپ کے فسُوں میں
کھیتوں میں کام کرکے لوٹے ہیں کام والے
چادر سَروں پہ ڈالے، کندھوں پہ ہل سنْبھالے
اب شام آگئی ہے جاگے ہیں بھاگ اِن کے
ہر سِمت گونْجتے ہے رستوں پہ راگ اِن کے
لے لے کے ڈور ڈنگر چروَاہے آ رہے ہیں
سِیٹی بجا رہے ہیں، اور گِیت گا رہے ہیں
کم سِن سہیلیوں کا پنگھٹ پہ جمگھٹا ہے
جانے اکیلیوں کا دِن کِس طرح کٹا ہے
یہ بار بار باتیں، یہ بار بار ہنسنا
یہ بے شُمار باتیں، یہ بے شُمار ہنسنا
اِک گُد گُدا رہی ہے، چِھینٹے اُڑا رہی ہے
اک بھر چُکی ہے پانی، گاگر اُٹھا رہی ہے
شرما کے اِک نے اوڑھے، منہ پر ہنسی کے مارے
رنگیں اوڑھنی کے بِھیگے ہُوئے کِنارے
شرم و حَیا کی سُرخی چہرے پہ چھا رہی ہے
شام اُس کو دیکھتی ہے اور مُسکرا رہی ہے
ابوالاثرحفیظ جالندھری
حفیظ جالندھری
پچّھم کے در پہ سُورج بِستر جما رہا ہے
رنگین بادلے میں چہرہ چُھپا رہا ہے
کِرنوں نے رنگ ڈالا بادل کی دھارِیوں کو
پھیلا دِیا فلک پر گوٹے کِناریوں کو
عکسِ شَفَق نے کی ہے اِس طرح زرفشانی
گُھل مِل کے بہ رہے ہیں ندی میں آگ پانی
اوڑھے سِیہ دوپٹّے سرسبز وادِیوں نے
زیور اُتار ڈالے گُلزار زادِیوں نے
چھایا ہے تھوڑا تھوڑا پیروں تلے انْدھیرا
چڑیوں نے کھیت چھوڑا لینے چلیں بَسیرا
کلیوں کے قہقہوں سے معمُور ہیں ہَوائیں
پریوں کی لورِیاں ہیں یہ رس بھری صدائیں
لپٹی ہُوئی ہے نیندیں کیف آفرِیں ہَوا میں
خاموشِیوں کی لہریں اُٹھنے لگیں فِضا میں
گُم ہو چلی ہے دُنیا بِکھرے ہُوئے سکوُں میں
دِن غرق ہو رہا ہے چُپ چاپ کے فسُوں میں
کھیتوں میں کام کرکے لوٹے ہیں کام والے
چادر سَروں پہ ڈالے، کندھوں پہ ہل سنْبھالے
اب شام آگئی ہے جاگے ہیں بھاگ اِن کے
ہر سِمت گونْجتے ہے رستوں پہ راگ اِن کے
لے لے کے ڈور ڈنگر چروَاہے آ رہے ہیں
سِیٹی بجا رہے ہیں، اور گِیت گا رہے ہیں
کم سِن سہیلیوں کا پنگھٹ پہ جمگھٹا ہے
جانے اکیلیوں کا دِن کِس طرح کٹا ہے
یہ بار بار باتیں، یہ بار بار ہنسنا
یہ بے شُمار باتیں، یہ بے شُمار ہنسنا
اِک گُد گُدا رہی ہے، چِھینٹے اُڑا رہی ہے
اک بھر چُکی ہے پانی، گاگر اُٹھا رہی ہے
شرما کے اِک نے اوڑھے، منہ پر ہنسی کے مارے
رنگیں اوڑھنی کے بِھیگے ہُوئے کِنارے
شرم و حَیا کی سُرخی چہرے پہ چھا رہی ہے
شام اُس کو دیکھتی ہے اور مُسکرا رہی ہے
ابوالاثرحفیظ جالندھری