شامِ غم کچھ اُس نگاہِ ناز کی باتیں کرو ۔ ونود سہگل

فرخ منظور

لائبریرین
شامِ غم کچھ اُس نگاہِ ناز کی باتیں کرو
بےخودی بڑھتی چلی ہے، راز کی باتیں کرو

یہ سکوتِ ناز، یہ دل کی رگوں کا ٹُوٹنا
خامشی میں کچھ شکستِ ساز کی باتیں کرو

نکہتِ زلفِ پریشاں، داستانِ شامِ غم
صبح ہونے تک اِسی انداز کی باتیں کرو

عشق رُسوا ہو چلا، بے کیف سا، بے زار سا
آج اُس کی نرگسِ غمّاز کی باتیں کرو

نام بھی لینا ہے جس کا اِک جہانِ رنگ و بُو
دوستو اُس نو بہارِ ناز کی باتیں کرو

ہر رگِ دل وجد میں آتی رہے، دُکھتی رہے
یونہی اُس کے جا و بے جا ناز کی باتیں کرو

جو عدم کی جان ہے، جو ہے پیامِ زندگی
اُس سکوتِ راز، اُس آواز کی باتیں کرو

کس لئے عذرِ تغافُل، کس لئے الزامِ عشق
آج چرخِ تفرقہ پرداز کی باتیں کرو

کُچھ قفس کی تیلیوں سے چھَن رہا ہے نُور سا
کُچھ فضا، کُچھ حسرتِ پرواز کی باتیں کرو

جو حیاتِ جاوداں ہے، جو ہے مرگِ ناگہاں
آج کچھ اُس ناز، اُس انداز کی باتیں کرو

جس کی فُرقت نے پلٹ دی عشق کی کایا فراق
آج اس عیسیٰ نفس دم ساز کی باتیں کرو

(رگھو پتی سہائے فراق گھورکھپوری)


 
Top