شامی پناہ گزینوں کی ہجرت!

arifkarim

معطل
b736.gif
 
مدیر کی آخری تدوین:

متلاشی

محفلین
العربیہ ڈاٹ نیٹ
#سعودی_عرب کی وزارت خارجہ کے ذمہ دار ذرائع نے بتایا ہے کہ #ریاض حکومت #شام مصیبت زدگان کے حوالے سے کی جانے والی امدادی مساعی کا ڈھنڈورا نہیں پیٹ رہی ہے۔ یہ الزام بے بنیاد ہے کہ سعودی عرب شامی پناہ گزینوں کوپناہ نہیں دے رہا ہے بلکہ۔ حقیقت یہ ہے کہ شام میں خانہ جنگی کے بعد سے اب تک 25 لاکھ شامی شہریوں کو سعودی عرب میں پناہ دی گئی ہے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق سعودی عرب کی وزارت خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ شام سے آنے والے بے سہارا شہریوں کے ساتھ دینی اور انسانی بنیادوں پر برابری کا سلوک کیا جاتا ہے۔ سعودی حکومت نے شامی شہریوں کے لیے پناہ گزین یا مہاجرین کی اصطلاح استعمال کی ہے اور نہ انھیں پناہ گزینوں کے طور پر ڈیل کیا جاتا ہے۔ اب چونکہ ذرائع ابلاغ میں سعودی عرب پر شامی پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے بند کرنے کے باربار بھونڈے الزامات عاید کیے جا رہے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ شام میں عوامی انقلاب کی تحریک کے سب سے پر زور حامی سعودی عرب نے شامی پناہ گزینوں کو اپنی سرزمین میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔ اس لیے اب یہ بتانا ضروری ہوچکا ہے کہ سعودی عرب پچھلے چار سال کے دوران پچیس لاکھ شامی شہریوں کا استقبال کرچکا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ شام میں جاری بغاوت اور خانہ جنگی کے بعد پہلے مرحلے میں شہریوں نے سعودی عرب کی طرف نقل مکانی شروع کی تھی۔ غیر علانیہ طورپر سعودی عرب میں اب تک پچیس لاکھ کے قریب شامی شہری پہنچ چکے ہیں۔ سعودی حکومت نے انہیں فوج کی نگرانی میں قائم کیمپوں یا پناہ گزینوں کے مراکز میں نہیں رکھا بلکہ انہیں ہر قسم کی آزادی فراہم کی گئی ہے۔

بیان میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2012ء کے بعد سعودی عرب نے شام سے آنے والے طلبہ وطالبات کو اپنی جامعات میں تعلیم کے حصول کا بھی مفت حق دیا۔ یہی وجہ ہے کہ صرف تین سال کے عرصے میں ایک لاکھ شامی طلبہ سعودی عرب کی جامعات میں زیرتعلیم ہیں۔ ان طلبہ کو سعودی عرب کے مقامی شہریوں کی طرح صحت، تعلیم اور دیگر سماجی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔

سعودی عرب میں آنے والی شامی پناہ گزینوں کی آباد کاری کےساتھ ساتھ الریاض حکومت نے شام کے اندر پھنسے شہریوں، #لبنان اور #اردن سمیت یورپی ملکوں کی طرف نقل مکانی کرنے والوں کی بھی ہر ممکن مدد فراہم کی ہے۔ سعودی عرب شامی پناہ گزینوں کی بہبود کے لیے خلیجی ممالک میں سب سے زیادہ نقد امداد فراہم کرتا ہے۔ 31 مارچ 2015ء کو #کویت میں منعقدہ تیسری بین الاقوامی ڈونرز کانفرنس میں بتایا گیا تھا کہ سعودی عرب کی طرف سے شامی شہریوں کی بحالی اور آباد کاری کے لیے 70 کروڑ ڈالرز کی رقم دی جا چکی ہے۔

حکومتی ذرائع نے ذرائع ابلاغ میں آنے والے الزامات اور گمرام کن پروپیگنڈے کو مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ جتنی مدد سعودی عرب کی جانب سے شامی شہریوں کے لیے کی گئی ہے، کسی دوسرے ملک نے نہیں کی۔ اس لیے یہ الزام قطعی بے بنیاد ہے کہ سعودی عرب شامی پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں داخل ہونے سے روک رہا ہے بلکہ سعودی عرب نے پچیس لاکھ سے زائد شامیوں کو اپنے ہاں ہر قسم کی شہری سہولتیں مہیا کررکھی ہیں۔

یہ امرقابل ذکر رہے کہ ان دنوں جب شامی پناہ گزینوں کے یورپی ملکوں کی طرف جانے کی خبریں سامنے آئیں تو ذرائع ابلاغ میں خلیجی ملکوں بالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دوسرے ملکوں پر کڑی تنقید کی گئی اور یہ کہا گیا کہ خلیجی ممالک نے شامی پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے بند کرکھے ہیں۔ جس کے باعث لاکھوں افراد #یورپ کی طرف پناہ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئےہیں۔
 

arifkarim

معطل
اس لیے اب یہ بتانا ضروری ہوچکا ہے کہ سعودی عرب پچھلے چار سال کے دوران پچیس لاکھ شامی شہریوں کا استقبال کرچکا ہے۔
کدھر؟ خالی خبر لگا دینا کافی ہے یا کوئی ڈاکومنٹری اثبوت مہیا کرنا بھی ضروری ہے؟
ئع کا کہنا ہے کہ شام میں جاری بغاوت اور خانہ جنگی کے بعد پہلے مرحلے میں شہریوں نے سعودی عرب کی طرف نقل مکانی شروع کی تھی۔ غیر علانیہ طورپر سعودی عرب میں اب تک پچیس لاکھ کے قریب شامی شہری پہنچ چکے ہیں۔ سعودی حکومت نے انہیں فوج کی نگرانی میں قائم کیمپوں یا پناہ گزینوں کے مراکز میں نہیں رکھا بلکہ انہیں ہر قسم کی آزادی فراہم کی گئی ہے۔
یہ 25 لاکھ شامی پناہ گزین اگر سعودی عرب میں موجود ہیں تو نظر کیوں نہیں آرہے؟ کیا خالی خبر دے دینے سے یہ سچ ثابت ہو جاتا ہے؟ جبکہ اسکے برعکس چند ہزار پناہ گزین یورپ کی طرف ہجرت کرتے وقت عالمی میڈیا کو نظر آ جاتے ہیں۔ اگر سعودی حکومت کی یہ بات تسلیم کر بھی لی جائے کہ ان شامی پناہ گزینوں کو کیمپوں میں نہیں رکھا جا رہا، تب بھی انکی موجودگی کا کوئی ریکارڈ تو موجود ہونا چاہئے۔
سید عاطف علی
ایچ اے خان
 

متلاشی

محفلین
کدھر؟ خالی خبر لگا دینا کافی ہے یا کوئی ڈاکومنٹری اثبوت مہیا کرنا بھی ضروری ہے؟

یہ 25 لاکھ شامی پناہ گزین اگر سعودی عرب میں موجود ہیں تو نظر کیوں نہیں آرہے؟ کیا خالی خبر دے دینے سے یہ سچ ثابت ہو جاتا ہے؟ جبکہ اسکے برعکس چند ہزار پناہ گزین یورپ کی طرف ہجرت کرتے وقت عالمی میڈیا کو نظر آ جاتے ہیں۔ اگر سعودی حکومت کی یہ بات تسلیم کر بھی لی جائے کہ ان شامی پناہ گزینوں کو کیمپوں میں نہیں رکھا جا رہا، تب بھی انکی موجودگی کا کوئی ریکارڈ تو موجود ہونا چاہئے۔
سید عاطف علی
ایچ اے خان

عارف بھائی میں نے تو خبر لگائی العربیہ کی جو اوپر نکتہ ور بھائی نے لنک دیا ہے وہاں سے ۔۔۔۔
باقی’’ عالمی میڈیا ‘‘ کی شفافیت اور غیر جانبداری کی تو پوری دنیا شاہد ہے ۔۔۔۔ :)
 

x boy

محفلین
ملیون انسانوں کو قتل کرکے دوسرے سیاروں میں ذندگی ڈھونڈنے والے کی شفاقیت کو ہر کوئی جانتا ہے۔ کچھ یوریپین ممالک کی پریم کہانی یوٹیوب میں موجود ہیں کسطرح کا شامیوں کے ساتھ پولیس نے رویہ اختیار کیا۔
 
Top