معاویہ وقاص
محفلین
شام سفر کی حد پہ تھے دن رات کی طرح
ہم بھی کبھی ملے تھے تضادات کی طرح
ہم بھی کبھی ملے تھے تضادات کی طرح
تو نے تو اپنے ساتھ مجھے بھی بدل دیا
میں تو نہیں تھا تیرے خیالات کی طرح
یہ پیڑ بھی عجیب ہیں ہنستے نہیں کبھی
پھولوں کو ضبط کرتے ہیں جذبات کی طرح
سورج کے سائباں میں کوئی چھید پڑ گیا
اب روشنی بھی ہوتی ہے برسات کی طرح
شہروں سے تنگ اور ہم آہنگ بھی بہت
بالکل یہ کنج دل ہے مضافات کی طرح
یہ بھی جمال یار کا احسان کم نہیں
ہم پر اثر کیا نہیں حالات کی طرح
یوں ہی سا اک چہرہ کہ دیکھا تھا سرسری
اب کھل رہا ہے مجھ پہ کرامات کی طرح
بازار جا کے بھی نہ بھلا پایا میں اسے
یاد آیا وہ مجھے میری اوقات کی طرح
عبّاس تابش