زھرا علوی
محفلین
میری پہلی پہلی نظم۔۔۔۔
"ہمارے گھر کے آنگن میں
اترتی شام ہے جب بھی
تو چاروں اور جانے کیوں
بہت خاموش سی
چپ سی
صدائیں گنگناتی ہیں
انوکھے راگ بجتے ہیں
کئی یادوں کے انگارے
کبھی جلتے ہیں
بجھتے ہیں
نہ جانے کتنے ہی الفاظ
ذہن و دل ل صفحے پر
سمٹتے ہیں
بکھرتے ہیں
کبھی کچھ یاد کرنے کی
کوئی الجھن کوئی کوشش
کبھی سب بھول جانے کی
انوکھی سی کوئی خواہش
کبھی بے سوچ سے لمحے
سرک جاتے ہیں ہاتھوں سے
اور ان کو تھام لینے کی
کوئی معصوم سی کاوش
لہو کو منجمد کرتی
اترتی شام کی یہ چپ
پرندوں کے گھروں کو لوٹ جانے کے کئی منظر
ہمیں دھندلا سا الجھا سا
کوئی رستہ سجھاتے ہیں
مگر اک اضطراری میں
نہیں ہم دیکھتے اس کو
کہ دھندلے سے یہی رستے
ادھوری آگہی ہی تو
عذابِ جاں شروع سے ہیں
ہم ہی کیا مبتلائے غم
سبھی انساں شروع سے ہیں
کنارے پر پہنچنے کی ریاضت عمر بھر کی ہے
کنارے پر پہنچ کر بھی سفر نے ساتھ کب چھوڑا
ادھوری آگہی کا دکھ اکیلا ہمسفر میرا
کبھی اے کاش کچھ بولے
یہ چپ چپ سی اترتی شام
کبھی اے کاش کچھ پنچھی نہ گھر کو لوٹ کے جائیں
ہمارے پاس رہ جائیں
اک ایسا راز کہہ جائیں
جو توڑے اس گھنی چپ کو
مکمل جو ہمیں کر دے"۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہمارے گھر کے آنگن میں
اترتی شام ہے جب بھی
تو چاروں اور جانے کیوں
بہت خاموش سی
چپ سی
صدائیں گنگناتی ہیں
انوکھے راگ بجتے ہیں
کئی یادوں کے انگارے
کبھی جلتے ہیں
بجھتے ہیں
نہ جانے کتنے ہی الفاظ
ذہن و دل ل صفحے پر
سمٹتے ہیں
بکھرتے ہیں
کبھی کچھ یاد کرنے کی
کوئی الجھن کوئی کوشش
کبھی سب بھول جانے کی
انوکھی سی کوئی خواہش
کبھی بے سوچ سے لمحے
سرک جاتے ہیں ہاتھوں سے
اور ان کو تھام لینے کی
کوئی معصوم سی کاوش
لہو کو منجمد کرتی
اترتی شام کی یہ چپ
پرندوں کے گھروں کو لوٹ جانے کے کئی منظر
ہمیں دھندلا سا الجھا سا
کوئی رستہ سجھاتے ہیں
مگر اک اضطراری میں
نہیں ہم دیکھتے اس کو
کہ دھندلے سے یہی رستے
ادھوری آگہی ہی تو
عذابِ جاں شروع سے ہیں
ہم ہی کیا مبتلائے غم
سبھی انساں شروع سے ہیں
کنارے پر پہنچنے کی ریاضت عمر بھر کی ہے
کنارے پر پہنچ کر بھی سفر نے ساتھ کب چھوڑا
ادھوری آگہی کا دکھ اکیلا ہمسفر میرا
کبھی اے کاش کچھ بولے
یہ چپ چپ سی اترتی شام
کبھی اے کاش کچھ پنچھی نہ گھر کو لوٹ کے جائیں
ہمارے پاس رہ جائیں
اک ایسا راز کہہ جائیں
جو توڑے اس گھنی چپ کو
مکمل جو ہمیں کر دے"۔۔۔۔۔۔۔۔