صاحبقران
محفلین
شام کے وقت سورج کے آرام کے وقت
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
شام کے وقت دھندلے پڑتے سائے اکثر مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں تمہے شام کیوں حسین لگتی ہے
انہیں کیا پتہ
شام کیا ہے شام کاوقت تو دن کا حسن ہوتا ہے
سمندر میں نہاتا سورج ٹھنڈا ھو جاتا ہے کسی جھیل میں گرمی کا دیوتا اپنی پیاس بجھاتا ہوا بہت معصوم نظر آتا ہے. پہاڑوں کے پار ڈھلتاسورج کسی کمسن دوشیزھ کے ہاتھ پر لگی لال لال مہندی کی ٹکیا کی مانند شوخ لگتا ہے . جھیل پر پھیلتی لالی جزبات میں تغیرات پیدا کرتے ھیں.
دور آسمان پر ڈھلتا سورج اپنی حدت سے بادلوں کو کندن بناتا چلا جاتا ہے. جیسے عشق میں بندہ جلتا ہے اور جلتا ہی چلا جاتا ہے. آخر وہ کندن بن کر سیا راتوں کی نظر ہو جاتاہے. اکثر مجھے سورج کچھ تھکا تھکا سا لگتا ھے ایک دن پوچھ بیٹھا کہ اے آفتاب تو کیوں پریشان ہے
وھ یک بیک بھڑک اٹھا میں ڈر کے بھاگنے والا تھا کہ ایک دلگیر آواز آئی "تمہیں کیا معلوم" مینے سورج کو روتے دیکھا ہاں ہاں وھ رو رھا تھا آتشیں سیال ساگر میں گرنے لگا ساگر میں جیسے سونا پگھل رہا تھا وھ اپنے غروب پر اور انسانوں کی جہالت پر رو رہا تھا مگر میں ساگر پر پھیلی کرنوں کے مدوجزر میں کھو گیا پھر آسماں سے زمیں تک روشنی کا ایسا تسلسل قائم ھوا کہ وقت رک سا گیا اور پرندے چہچہانے لگے سورج اپنی تمازت کھوتا چلا گیا بس روتا چلا گیا ساگر میں خود کو ڈبوتا چلا گیا پہاڑوں کے پار چلا گیا برف پوش چوٹیا جگمگا اٹھی یوں روشنیاں منعکس ہوئی جیسے کوئی پیار کے دیوتا کے چرن چھو رہا ہو. مگر مینے انسان کو ویسے ہی نفسا نفسی کے عالم میں دیکھا بسسسسسسسسسسس میں کف افسوس ملتا ہوا رات کی تاریکی میں راکھ بن کر مدغم ہوتا چلا گیا بس راکھ بن کر راکھ بنتا چلا گیا راکھ راکھ راکھ اور بس راکھ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
از قلم تیمور خان.
تحریر ؛ ٢٠١٣
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
شام کے وقت دھندلے پڑتے سائے اکثر مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں تمہے شام کیوں حسین لگتی ہے
انہیں کیا پتہ
شام کیا ہے شام کاوقت تو دن کا حسن ہوتا ہے
سمندر میں نہاتا سورج ٹھنڈا ھو جاتا ہے کسی جھیل میں گرمی کا دیوتا اپنی پیاس بجھاتا ہوا بہت معصوم نظر آتا ہے. پہاڑوں کے پار ڈھلتاسورج کسی کمسن دوشیزھ کے ہاتھ پر لگی لال لال مہندی کی ٹکیا کی مانند شوخ لگتا ہے . جھیل پر پھیلتی لالی جزبات میں تغیرات پیدا کرتے ھیں.
دور آسمان پر ڈھلتا سورج اپنی حدت سے بادلوں کو کندن بناتا چلا جاتا ہے. جیسے عشق میں بندہ جلتا ہے اور جلتا ہی چلا جاتا ہے. آخر وہ کندن بن کر سیا راتوں کی نظر ہو جاتاہے. اکثر مجھے سورج کچھ تھکا تھکا سا لگتا ھے ایک دن پوچھ بیٹھا کہ اے آفتاب تو کیوں پریشان ہے
وھ یک بیک بھڑک اٹھا میں ڈر کے بھاگنے والا تھا کہ ایک دلگیر آواز آئی "تمہیں کیا معلوم" مینے سورج کو روتے دیکھا ہاں ہاں وھ رو رھا تھا آتشیں سیال ساگر میں گرنے لگا ساگر میں جیسے سونا پگھل رہا تھا وھ اپنے غروب پر اور انسانوں کی جہالت پر رو رہا تھا مگر میں ساگر پر پھیلی کرنوں کے مدوجزر میں کھو گیا پھر آسماں سے زمیں تک روشنی کا ایسا تسلسل قائم ھوا کہ وقت رک سا گیا اور پرندے چہچہانے لگے سورج اپنی تمازت کھوتا چلا گیا بس روتا چلا گیا ساگر میں خود کو ڈبوتا چلا گیا پہاڑوں کے پار چلا گیا برف پوش چوٹیا جگمگا اٹھی یوں روشنیاں منعکس ہوئی جیسے کوئی پیار کے دیوتا کے چرن چھو رہا ہو. مگر مینے انسان کو ویسے ہی نفسا نفسی کے عالم میں دیکھا بسسسسسسسسسسس میں کف افسوس ملتا ہوا رات کی تاریکی میں راکھ بن کر مدغم ہوتا چلا گیا بس راکھ بن کر راکھ بنتا چلا گیا راکھ راکھ راکھ اور بس راکھ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
از قلم تیمور خان.
تحریر ؛ ٢٠١٣