شان ناموس رسالت کا چوکیدار

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ضیاء حیدری

محفلین
آج کل میڈیا، بیٹھکوں اور محفلوں میں بھی زیادہ تر موضوعِ بحث دو معاملات ہیں ۔ ایک ابھرتا ہوا سنی فیکٹر اور دوسرا فوری الیکشن کے امکانات ۔۔۔۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی آج کل کافی مصروف نظر آتے ہیں اور کچھ لوگوں کے خیال میں سیاسی پارٹیاں الیکشن کمپین کی طرف جاتی دکھائی دیتی ہیں۔
اس وقت ہم زیادہ تر فوکس سنی فیکڑ پر رکھیں گے۔لاہور کے حلقہ ۱۶۲ میں ہونے والے ضمنی انتخاب لبیک یا رسول نے پی پی پی اور جماعت اسلامی سے زیادہ ووٹ لے کر اپنی بھرپور آمد کا اعلان کردیا تھا۔ لیکن موم بتی مافیا اسے ایک سیاسی قوت پر تسلیم کرنے سے ہچکچا رہی ہے۔ تحریک لبیک یارسول اللہ ‘نے لاہور ضمنی انتخابات میں غیرمتوقع طور پر جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے سطحی علم و دانش کے حامل ذرائع ابلاغ کے اینکروں کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔اس پر طرہ یہ کہ فیض آباد کے مرکزی چوک پر دھرنے نے تین ہفتے کے لئے پاکستانی سوسائٹی ہلچل مچا کر رکھ دی اور ریاست دھرنے کے شرکا کے مطالبات کے آگے ڈھیر ہوگئی۔ اس اعصاب شکن دور میں مولانا خادم حسین رضوی کی شخصیت، حلیہ اور ان کے مخصوص اندازگفتگو سے عوام نے اثر لیا، اور انکی ایک پر کروڑوں کا مجمع اکٹھا ہوگیا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ موم بتی میڈیا نے مکمل بائیکاٹ کیا ہوا تھا، اس کے اثرات معاشرے پر بڑے واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
دھرنے سے قبل جناب خادم حسین رضوی سے واقفیت رکھنے والے لوگ اتنے زیادہ نہیں تھے۔ وہ آیا اور چھا گیا، کہ مصداق خادم رضوی نمودار ہوئے اور اپنے بلند آہنگ اور بے تکلف اندازِ گفتگو کے ساتھ مولانا نے اسلامی سیاست کا آغاز کیا۔ مولانا رضوی نے اعلان کیاتھا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کا ہر جگہ سامنا کریں گے۔ جس کے بعد انہوں نے تحریک لبیک یارسول اللہ ؐ کے قیام کے لئے الیکشن کمشن کو درخواست دی۔وہ بڑے فخر سے اپنے آپ کو شان ناموس رسالت کا چوکیدار' پہریدار اور خدمت گذار قرار دیتے ہیں یہی شناخت انہیں شہرت کے موجودہ مقام تک لے آئی۔
 

سین خے

محفلین
دھرنے سے قبل جناب خادم حسین رضوی سے واقفیت رکھنے والے لوگ اتنے زیادہ نہیں تھے۔ وہ آیا اور چھا گیا، کہ مصداق خادم رضوی نمودار ہوئے اور اپنے بلند آہنگ اور بے تکلف اندازِ گفتگو کے ساتھ مولانا نے اسلامی سیاست کا آغاز کیا۔ مولانا رضوی نے اعلان کیاتھا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کا ہر جگہ سامنا کریں گے۔ جس کے بعد انہوں نے تحریک لبیک یارسول اللہ ؐ کے قیام کے لئے الیکشن کمشن کو درخواست دی۔وہ بڑے فخر سے اپنے آپ کو شان ناموس رسالت کا چوکیدار' پہریدار اور خدمت گذار قرار دیتے ہیں یہی شناخت انہیں شہرت کے موجودہ مقام تک لے آئی۔

بے تکلف اندازِ گفتگو میں ہیٹ اسپیچ اور گالیاں شامل ہیں۔ ایسے بے تکلف انداز سے واقعی انسان بہتتتتتت مشہور ہوتا ہے۔

انتہائی افسوس کا مقام یہ ہے کہ خادم رضوی کی بدولت بریلوی علماء جو کہ نرم مزاجی اور میٹھے لہجے کے لئے مشہور ہیں ہر جگہ بدنام ہو رہے ہیں۔ خدا بریلوی بہن بھائیوں کو عقل عطا فرمائے کہ وہ خادم رضوی کا بائیکاٹ کر کے بریلوی مسلک کی عزت بحال رکھ سکیں۔
 

فاتح

لائبریرین
خادم رضوی تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ ہیں

Ashraf Jalali says Khadim Hussain Rizvi does not head TLYRA
عرف عام میں اسے پین دی سری PDS پارٹی بھی کہا جاتا ہے جو خادم رضوی کی زبان مبارک سے جھڑنے والے بے شمار متبرک پھولوں میں سے ایک ہے۔
اشرف جلالی اگر خادم حسین کو اس گروہ کا سردار تسلیم نہیں کرتا تو اوہدی وی۔۔۔
 
آخری تدوین:

فاخر رضا

محفلین
قطر جسکی آبادی ابھی پھبیس لاکھ ہے ، یہاں سے بھی پانی کے ڈیڑھ سو جہازوں میں تقریباََ پچیس لاکھ لوگ فیض آباد گئے تھے۔ اسکے علاوہ ایران سے دو کروڑ لوگ افغانستان سے تین کروڑ اور ہندوستان سے بیس کروڑ لوگوں نے شرکت کی۔ چائنہ سے بھی پچاس کروڑ لوگ تشریف لائے تھے۔ پاکستان میں بسنے والے بیس کروڑ لوگوں نے بھی فیض آباد کے دھرنے میں شرکت کی تھی۔ ان کروڑوں لوگوں کو جب پولیس نے تھانوں میں بند کیا تو وہاں بحر عرب سے نیلی ویل مچھلیاں لاکر انہیں کھلائی گئیں کیونکہ ملک میں کھانا کم پڑ گیا تھا۔ بارڈر پر رضوی صاحب نے وہ ہزار لوگوں کے علاوہ سب کو سلیمانی ٹوپی پہنا دی تھی تاکہ وہ نظر نہ آئیں۔ مگر پھر بھی پاکستان آرمی کو وہ افراد نظر آگئے اور انہوں نے ملک کو گھمبیر صورتحال سے نکالنے کے لئے ایکشن لیا اور رضوی صاحب کے سامنے ڈھیر ہوگئے۔ یہ اور بات ہے کہ کشمیر ،کارگل اور دیگر محاذوں پر ہماری فوج بہت بہادری سے لڑتے ہوئے ہار چکی ہے۔ مگر یہ تو رضوی صاحب کا معاملہ تھا ۔ اس میں کیسے کوتاہی کی جاسکتی تھی۔
اب سنجیدہ بات:
اگر ہماری فوج تھوڑی سی بھی مردانگی دکھاتی تو یہ ٹولہ ایک گھنٹے کے لئے بھی نہیں ٹھیر سکتا تھا مگر جب یہ فوج بے عزتی کرانے پر آتی ہے تو میں پہلے لکھ چکا ہوں کیا کیا کر سکتی ہے۔ بنگلادیش بنانے میں جتنا ہاتھ ہمارے حکمرانوں کا تھا اتنا ہی فوج کا بھی تھا، (ایک تجزیے کے مطابق)۔ خدا ایسے بیکار لوگوں سے ہمیں نجات دے۔
ہمارا دین تو وہ ہے جس میں بچے کو غلطی سے تھپڑ مارنے پر بھی دیت کا قانون موجود ہے، وہاں ایک پولیس والے کی ہڈیاں توڑ کر ایک کو اندھا کرکے چھوڑ دیا۔ حد ہے بھائی وحشی پن کی
 

آوازِ دوست

محفلین
PDS از جسٹ دی ٹپ آف آئس برگ۔ علامہ صاحب نے اپنی شعلہ بیانی سے مسجد ومنبر سے وابستہ لوگوں کی اخلاقی نورانیت اور پاکیزگی کے روائتی تصورات کو جلا کر پھونک ڈالا ہے۔ حیرت ہے کہ دیگر علما بھی علامہ صاحب کی دہشت کے آگے بےبس ہیں۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ آج جابر حکمران کے سامنے کلمہء حق کہنا آسان اور علامہ صاحب کو حق بات کہنا مشکل ہے۔ مخالفین کے لیے توہینِ رسالت یا ختمِ نبوت دشمنی کا ہر وقت تیارالزام اور ہجوم کا انصاف۔ سب آکھو سُبحان اللہ تے جیہڑا ناں آکھے او ۔ ۔ ۔ ۔
 

جاسمن

لائبریرین
غلام ہیں غلام ہیں
نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے غلام ہیں۔
غلامئی رسول میں۔۔موت بھی قبول ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پر ان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات نہیں مانیں گے۔(نعوذ بااللہ)
نہ ان کے رستے پہ چلیں گے ( نعوذ بااللہ)
۔۔۔۔۔
حیرت سی حیرت۔
آپ کو احساس بھی ہے ذرا سا کہ کن ہستی کا نام استعمال کر رہے ہو۔
ہمیں تو اپنے بچوں کے سامنے شرمندگی ہو رہی ہے۔
ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔
ہماری وجہ سے کسی کی دل شکنی ہو تو ہمارے دن بھاری اور راتیں رت جگے بن جاتی ہیں۔۔۔۔
پتہ نہیں کیسے سخت دل پائے ہیں۔
یہ ہم اپنا کیسا چہرہ دکھا رہے ہیں دنیا کو۔
یہ گروہ کچھ نرم مزاج دکھائی دیتا تھا، یہ بھی اب بغیر تھوک اڑائے بات نہیں کرتا۔
مقصد اعلی پر طریقہ جہالت ۔
یا اللہ !ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔
اپنے انعام یافتہ لوگوں کا راستہ دکھا۔
ان لوگوں کے رستے پہ نہ چلانا جو بھٹک گئے۔جو راندہء درگاہ ہو گئے۔
یا اللہ!
یا اللہ!
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top