سخن کی قدر دانی زندگانی میں نہیں جاتی
یہاں جب شمع بجھ لیتی ہے تب پروانہ آتا ہے
سب سے پہلا شعر جو ابتدائی اشعار میں مجھے پسند ہے وہ ہے جس میں ابوالاثر حفیظ جالندھری مرحوم نے وجہ تالیف بتاتے ہوئے اپنی آرزو کو ان سادہ مگر موثر لفظوں میں بیان کیا ہے
تمنا ہے کہ اس دنیا میں کوئی کام کر جاؤں
اگر کچھ ہو سکے تو خدمت اسلام کر جاؤں
ابوالاثر حفیظ جالندھری مرحوم نے فردوسی کے شاہنامے اور کام کا ذکر بہت اچھے طریق سے کیا ہے جس میں واجبی انکسار کے علاوہ صورت واقعہ اور دلی درد کا اظہار ہے :۔
کیا فردوسی موحوم نے ایران کو زندہ
خدا توفیق دے تو میں کروں ایمان کو زندہ
تقابل کا کروں دعویٰ یہ طاقت ہی کہاں میری
تخیل میرا ناقص نامکمل ہے زباں میری
زباں پہلوی کی ہمزبانی ہو نہیں سکتی
ابھی اردو میں پیدا وہ روانی ہو نہیں سکتی
کہاں ہے اب وہ دور غزنوی کی فارغ البالی
غلامی نے دبا رکھی ہے میری ہمت عالی
جب حضرت ابراہیم علیہ سلام اپنی بیوی کو ہمراہ لے کر عرب کی طرف آئے تو اس مختصر سے قافلہ کا صحرائے عرب میں سفر ذیل کے تین شعروں میں بہت پاکیزہ لفظوں میں بیان ہوا ہے :۔
خدا کا قافلہ جو مشتمل تھا تین جانوں پر
معزز جس کو ہونا تھا زمینوں آسمانوں پر
چلا جاتا تھا اس تپتے ہوئے صحرا کے سینے پر
جہاں دیتا ہے انساں موت کو ترجیح جینے پر
وہ صحرا جس کا سینہ آتشیں کرنوں کی بستی ہے
وہ مٹی جو سدا پانی کی صورت کو ترستی ہے
یہ کس کی جستجو میں مہر عالمتاب پھرتا ہے
ازل کے روز سے بیتاب تھا بیخواب پھرتا ہے
کروڑوں رنگتیں کس کے لئے ایام نے بدلیں
پیپے کروٹیں کس دھن میں صبح و شام نے بدلیں
یہ سب کچھ ہو رہا تھا ایک ہی امید کی خاطر
یہ ساری کاہشیں تھیں ایک صبح عید کی خاطر
معین وقت آیا زور باطل گھٹ گیا آخر
اندھیرا مٹ گیا ظلمت کا بادل چھٹ گیا آخر
مبارک ہو کہ دور راحت و آرام آ پہنچا
نجات دائمی کی شکل میں اسلام آ پہنچا
مبارک ہو کہ ختم المرسلیں تشریف لے آئے
جناب رحمتہ للعٰلمین تشریف لے آئے
خبر جا کر سنا دو شش جہت کے زیردستوں کو
زبردستی کی جرات اب نہ ہو گی خودپرستوں کو
ضعیفوں بیکسوں آفت نصیبوں کو مبارک ہو
یتیموں کو غلاموں کو غریبوںکو مبارک ہو
کس عجیب پیرائے میں ان خصائل کا ذکر کیا گیا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا جزو تھیں
جس شب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے ارادے سے مکہ شریف سے کفار کے نرغے کے باوجود نکلتے ہیں دیکھیے اس کا بیان کس انداز سے ہوا ہے
نظر آتی تھیں چاروں سمت تلواریں ہی تلواریں
اندھیرے میں چمک اٹھتی تھیں بجلی کی طرح دھاریں
وہ دراتا ہوا وحدت کا دم بھرتا ہوا نکلا
تلاوت سورۃ یٰسین کی کرتا ہوا نکلا
کھنچی ہی رہ گئیں خونریز خوں آشام شمشیریں
کسی نے کھینچ دی ہوں جس طرح کاغذ کی تصویریں*
مدینے پہنچنے پر جو زندگی مسلمانوں نے اپنے ہادی برحق کے زیر سایہ شروع کی اس کا نقشہ ذیل کے اشعار میں ملاحظہ ہو :۔
تھے انصار و مہاجر اک نمونہ شان وحدت کا
کہ اس تسبیح میں تھا رشتہ محکم اخوت کا
مسلماں تھے کہ تھیں زید ورع کی زندہ تصویریں
نمازیں اور تسبیحیں اذانیں اور تکبیریں
تجارت یا زراعت یا دعائیں یا مناجاتیں
مشقت کے لئے دن تھے عبادت کے لئے راتیں
جہاد پر جو حکم ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا اسے واضع کیا گیا ہے ۔ اس سے بہتر اصول واضع کرنا ناممکن ہے افسوس کہ دنیا اس کے حکم متعلق گوناں گوں غلطیوں میں مبتلا ہے ۔
کہا راہ خدا میں تم کو لڑنے کی اجازت ہے
خدا کے دشمنوں کے دفع کرنے کی اجازت ہے
مگر تم یاد رکھو صاف ہے یہ حکم قرآں کا
ستانا بے گناہوں کو نہیں شیوا مسلماں کا
نہیں دیتا اجازت پیش دستی کی خدا ہرگز
مسلماں ہو تو لڑنے میں نہ کرنا ابتدا ہر گز
فقط ان سے لڑو جو لوگ تم سے جنگ کرتے ہیں
فقط ان سے لڑو جو تم پہ جینا تنگ کرتے ہیں