حفیظ جالندھری شاہنامہ اسلام جلد اول سے منتخب اشعار

راجہ صاحب

محفلین

سخن کی قدر دانی زندگانی میں نہیں جاتی
یہاں جب شمع بجھ لیتی ہے تب پروانہ آتا ہے

سب سے پہلا شعر جو ابتدائی اشعار میں مجھے پسند ہے وہ ہے جس میں ابوالاثر حفیظ جالندھری مرحوم نے وجہ تالیف بتاتے ہوئے اپنی آرزو کو ان سادہ مگر موثر لفظوں میں بیان کیا ہے

تمنا ہے کہ اس دنیا میں کوئی کام کر جاؤں
اگر کچھ ہو سکے تو خدمت اسلام کر جاؤں

ابوالاثر حفیظ جالندھری مرحوم نے فردوسی کے شاہنامے اور کام کا ذکر بہت اچھے طریق سے کیا ہے جس میں واجبی انکسار کے علاوہ صورت واقعہ اور دلی درد کا اظہار ہے :۔

کیا فردوسی موحوم نے ایران کو زندہ
خدا توفیق دے تو میں کروں ایمان کو زندہ

تقابل کا کروں دعویٰ یہ طاقت ہی کہاں میری
تخیل میرا ناقص نامکمل ہے زباں میری

زباں پہلوی کی ہمزبانی ہو نہیں سکتی
ابھی اردو میں پیدا وہ روانی ہو نہیں سکتی

کہاں ہے اب وہ دور غزنوی کی فارغ البالی
غلامی نے دبا رکھی ہے میری ہمت عالی
آخری مصرعے میں جو درد ہے اس سے آج کل کے اکثر نوجوان آگاہ ہیں اور فی الحقیقت ہمیتیں اس زمانے میں بہت پست ہو وہی ہیں مگر جس بلند ہمتی کا ثبوت ابوالاثر حفیظ جالندھری مرحوم نے دیا ہے وہ قابل تعریف ہے کہ ناداری کے سنگ گراں کے باوجود ایسے اہم کام کا بیڑا اٹھایا ہے جس سے بڑے بڑے سرمایا دار گھبرائیں ۔
جب حضرت ابراہیم علیہ سلام اپنی بیوی کو ہمراہ لے کر عرب کی طرف آئے تو اس مختصر سے قافلہ کا صحرائے عرب میں سفر ذیل کے تین شعروں میں بہت پاکیزہ لفظوں میں بیان ہوا ہے :۔

خدا کا قافلہ جو مشتمل تھا تین جانوں پر
معزز جس کو ہونا تھا زمینوں آسمانوں پر

چلا جاتا تھا اس تپتے ہوئے صحرا کے سینے پر
جہاں دیتا ہے انساں موت کو ترجیح جینے پر

وہ صحرا جس کا سینہ آتشیں کرنوں کی بستی ہے
وہ مٹی جو سدا پانی کی صورت کو ترستی ہے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں تشریف لانے کا متعلق جو اشعار لکھے ہیں انہیں پڑھ کر عاشقان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر حالت وجد طاری ہو گی

یہ کس کی جستجو میں مہر عالمتاب پھرتا ہے
ازل کے روز سے بیتاب تھا بیخواب پھرتا ہے

کروڑوں رنگتیں کس کے لئے ایام نے بدلیں
پیپے کروٹیں کس دھن میں صبح و شام نے بدلیں

یہ سب کچھ ہو رہا تھا ایک ہی امید کی خاطر
یہ ساری کاہشیں تھیں ایک صبح عید کی خاطر
ان شعروں میں تو آپ کی آمد کی امید کا ذکر تھا اب ذرا آمد کی شان ملاحظہ ہو

معین وقت آیا زور باطل گھٹ گیا آخر
اندھیرا مٹ گیا ظلمت کا بادل چھٹ گیا آخر

مبارک ہو کہ دور راحت و آرام آ پہنچا
نجات دائمی کی شکل میں اسلام آ پہنچا

مبارک ہو کہ ختم المرسلیں تشریف لے آئے
جناب رحمتہ للعٰلمین تشریف لے آئے

خبر جا کر سنا دو شش جہت کے زیردستوں کو
زبردستی کی جرات اب نہ ہو گی خودپرستوں کو

ضعیفوں بیکسوں آفت نصیبوں کو مبارک ہو
یتیموں کو غلاموں کو غریبوںکو مبارک ہو

کس عجیب پیرائے میں ان خصائل کا ذکر کیا گیا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا جزو تھیں
جس شب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے ارادے سے مکہ شریف سے کفار کے نرغے کے باوجود نکلتے ہیں دیکھیے اس کا بیان کس انداز سے ہوا ہے

نظر آتی تھیں چاروں سمت تلواریں ہی تلواریں
اندھیرے میں چمک اٹھتی تھیں بجلی کی طرح دھاریں

وہ دراتا ہوا وحدت کا دم بھرتا ہوا نکلا
تلاوت سورۃ یٰسین کی کرتا ہوا نکلا

کھنچی ہی رہ گئیں خونریز خوں آشام شمشیریں
کسی نے کھینچ دی ہوں جس طرح کاغذ کی تصویریں*

مدینے پہنچنے پر جو زندگی مسلمانوں نے اپنے ہادی برحق کے زیر سایہ شروع کی اس کا نقشہ ذیل کے اشعار میں ملاحظہ ہو :۔

تھے انصار و مہاجر اک نمونہ شان وحدت کا
کہ اس تسبیح میں تھا رشتہ محکم اخوت کا

مسلماں تھے کہ تھیں زید ورع کی زندہ تصویریں
نمازیں اور تسبیحیں اذانیں اور تکبیریں

تجارت یا زراعت یا دعائیں یا مناجاتیں
مشقت کے لئے دن تھے عبادت کے لئے راتیں

جہاد پر جو حکم ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا اسے واضع کیا گیا ہے ۔ اس سے بہتر اصول واضع کرنا ناممکن ہے افسوس کہ دنیا اس کے حکم متعلق گوناں گوں غلطیوں میں مبتلا ہے ۔

کہا راہ خدا میں تم کو لڑنے کی اجازت ہے
خدا کے دشمنوں کے دفع کرنے کی اجازت ہے

مگر تم یاد رکھو صاف ہے یہ حکم قرآں کا
ستانا بے گناہوں کو نہیں شیوا مسلماں کا

نہیں دیتا اجازت پیش دستی کی خدا ہرگز
مسلماں ہو تو لڑنے میں نہ کرنا ابتدا ہر گز

فقط ان سے لڑو جو لوگ تم سے جنگ کرتے ہیں
فقط ان سے لڑو جو تم پہ جینا تنگ کرتے ہیں
 

راجہ صاحب

محفلین
حمد

اسی کے نام سے آغاز ہے اس شاہنامے کا
ہمیشہ جس کے در پر سر جھکا رہتا ہے خامے کا

اسی نے ایک حرف کُن سے پیدا کر دیا عالم
کشاکش کی صدائے ہاوہو سے بھر دیا عالم

نظام آسمانی ہے اسی کی حکمرانی میں
بہار جاودانی ہے اسی کی باغبانی میں

اسی کے نور سے پر نور ہیں شمس و قمر تارے
وہی ثابت ہے جس کے گرد پھرتے ہیں یہ سیارے

زمیں پر جلوہ آرا ہیں مظاہر اس کی قدرت کے
بچھائے ہیں اسی داتا نے دسترخوان نعمت کے

یہ سرد و گرم خشک و تر اجالا اور تاریکی
نظر آتی ہے سب میں شان اسی اک ذات باری کی

وہی ہے کائنات اور اس کی مخلوقات کا خالق
نباتات و جمالات اور حیوانات کا خالق

وہی خالق ہے دل کا اور دل کے نیک ارادوں کا
وہی مالک ہمارا ہے اور ہمارے باپ دادوں کا

بشر کو فطرت اسلام پر پیدا کیا جس نے
محمد مصطفٰی کے نام پر شیدا کیا جس نے
 

راجہ صاحب

محفلین


نعت

محمد مصطفٰی محبوب داور سرور عالم
وہ جس کے دم سے مسجودِ ملائک بن گیا آدم

کیا ساجد کو شیدا جس نے مسجودِ حقیقی پر
جھکایا عبد کو درگاہِ معبودِ حقیقی پر

دلائے حق پرستوں کو حقوقِ زندگی جس نے
کیا باطل کو غرقِ موجہ شرمندگی جس نے

غلاموں کو سریرِ سلطنت پر جس نے بٹھلایا
یتیموں کے سروں‌ پر کر دیا اقبال کا سایا

گداؤں کو شہنشاہی کے قابل کر دیا جس نے
غرورِ نسل کا افسون باطل کر دیا جس نے

وہ جس نے تخت اوندھے کر دئے شاہان جابر کے
بڑھائے مرتبے دنیا میں ہر انسان صابر کے

دلایا جس نے حق انسان کو عالی تباری کا
شکستہ کر دیا ٹھوکر سے بت سرمایا داری کا

محمد مصطفٰی مہر سپر اوج عرفانی
ملی جس کے سبب تاریک ذروں‌ کو درخشانی

وہ جس کا ذکر ہوتا ہے زمینوں آسمانوں‌ میں‌
فرشتوں کی دعاؤں‌ میں موذن کی اذانوں میں‌

وہ جس کے معجزے نے نظم ہستی کو سنوارا ہے
جو بے یاروں‌ کا یارا بے سہاروں‌ کا سہارا ہے

وہ نورِ لَم یزل جو باعث تخلیقِ عالم ہے
خدا کے بعد جس کا اسمِ اعظم اسم اعظم ہے

ثنا خواں جس کا قرآن ہے ثنا میں جس کی قرآن میں
اسی پر میرا ایماں ہے وہی ہے میرا ایماں میں
 

راجہ صاحب

محفلین
خدا نے حضرت آدم کو دنیا کی خلافت دی
جہاں‌ میں‌ اپنا نائب کر کے بھیجا یہ سعادت دی

یہی مخلوق تھی فردوس سے جس کو نکالا تھا
اسی نے دانہ گندم پہ سب کچھ بیچ ڈالا تھا

بظاہر اس تقرر سے نئے فتنوں‌ کے ساماں تھے
زمین و آسماں جن ملائک سخت حیراں تھے

لگے سرگوشیاں‌ کرنے کہ انساں ہے بہت سادہ
ادھر شیطان کا لشکر شرارت پر ہے آمادہ

یہ بیچارہ دوبارہ دامِ شیطاں‌ میں‌ نا آ جائے
کہ دانہ کھا چکا ہے اب کہیں‌ دھوکہ نا کھا جائے
 

راجہ صاحب

محفلین
مزرا قطب الدین ایبک

انہی افکار میں بیٹھا تھا میں اک دن جھکائے سر
در آرام گاہِ شاہِ قطب الدین ایبک پر

وہ قطب الدین وہ مرد مجاہد جس کی ہیبت سے
یہ دنیا از سر نو جاگ اٹھی تھی خوابِ غفلت سے

یہ تربت ماتمی ہے ان حجازی شہسواروں کی
مسلمانوں نے مٹی بیچ لی جن کے مزاروں‌ کی

نہ پڑھتا ہے یہاں پر فاتحہ کوئی نہ روتا ہے
کسے معلوم ہے اس چھت کے نیچے کون سوتا ہے

مرے نزدیک اس تربت سے اب بھی شان پیدا ہے
مزار مرد غازی سے عجب ایمان پیدا ہے

نظر آتا ہے لہراتا ہوا اسلام کا جھنڈا
بہر سو نور پھیلاتا ہوا اسلام کا جھنڈا

صدائیں نعرہ ہائے جنگ کی آتی ہیں کانوں میں
بلند آہنگ تکبیریں سما جاتی ہیں‌ کانوں میں‌

نظر آتے ہیں‌ مجھکو سر خرو چہرے شہیدوں‌ کے
لہو کی ندیاں کھلتے ہوئے گلشن امیدوں کے​

سلطان قطب الدین ایبک سلطان شہاب الدین غوری کا ترکی غلام اور اس کی فوج کا سپہ سالار تھا ۔ جب سلطان شہاب الدین نے دہلی فتح کی تو قطب الدین کو ہندوستان کی حکومت تفویض کی ۔ قطب الدین نے ہندوستان میں اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی اور نہایت شجاعت کے ساتھ اطرافِ ہند کو علم اسلام کے نیچے لایا جب سلطان محمد غوری کا سنہ 1602 میں انتقال ہو گیا تو قطب الدین ہندوستان کا فرمانروا تسلیم کیا گیا اس طرح اس خاندان کی حکومت کی بنیاد پڑی جو تاریخ میں خاندانِ غلاماں کے نام سے مشہور ہے ۔
سلطان قطب الدین شجاع بہادر اور فاتح ہونے کے ساتھ ہی اتنا رحم دل فیاض اور سخی تھا کی ہندوستان کے لوگ اسے لَکھ داتا کہہ کر پکارتے تھے آج اس کی تربت ایسی جگہ ہے جسے کوئی جانتا بھی نہیں‌ ۔ لاہور میں انارکلی بازار سے جو راستہ میو ہسپتال کو جاتا ہے اس پر ایک ہندو کے مکان کی دیوار میں اس کی تربت ہے جہاں ایک پتھر پر کندہ ہے "" یہ ہے آخری آرام گاہ سلطان قطب الدین ایبک کی جو چوگان کھیلتا ہوا گھوڑے سے گرا اور مر گیا "" تاریخ وفات سنہ 1210
 
شاعروں میں علامہ اقبال کے بعد میں جن کو دل سے چاہتا ہوں وہ مرحوم حفیظ جالندھری ہی ہیں۔ اللہ پاک کی ان کی مغفرت کرے اور ان پر کروڑ ہا رحمتیں نازل کرے۔ آمین
 
Top