شاہی محلے کی سازندوں والی گلی

110215010005_muscial_instruments_lahore2_226x170_bbc_nocredit.jpg

’افعانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد جب وہاں دوبارہ روایتی موسیقی کا دور شروع ہوا تب سے اب تک جتنا طبلہ یہاں بنتا ہے اس کا اسی، نوے فیصد افغانستان جاتا ہے۔‘

پاکستان کے شہر لاہور میں تین سو سال قدیم اور تاریخی حیثیت کے حامل بازار حسن کے خاتمے کے باوجود اِس شاہی محلے میں ایک گلی آج بھی ڈھولک کی تھاپ، طبلے کی تال اور ہارمونیم کے سروں سے گونجتی ہے۔

شاہی محلے کی یہ پُر رونق جگہ ’سازندوں والی گلی‘ کہلاتی ہے اور اس میں نسل در نسل منتقل ہونے والے اس فن کے ہنر مند کہیں ڈھولک بناتے نظر آتے ہیں تو کہیں طبلہ، کہیں کوئی انتہائی باریک بینی سے ہارمونیم کے سر ٹھیک کررہا ہوتا ہے تو کوئی گٹار کی تاریں۔

کلِک شاہی محلے کی سازندوں والی گلی: وڈیو دیکھیے

سولہ سترہ دکانوں پر مشتمل اس گلی میں یہ ساز نہ صرف تیار کیے جاتے ہیں بلکہ فروخت بھی کیے جاتے ہیں۔

اننچاس سالہ رفاقت علی اسی گلی میں پینتیس سال سے ایک دکان پر طبلے بنا رہے ہیں۔اپنے باپ دادا کی طرح، رفاقت علی کے لیے بھی طبلے میں سر کو عین مطابق ڈھالنا جیسے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔

طبلے کی تیاری کے مراحل بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں’طبلے کی سطح پر لوہے کا سیاہ برادہ یوں تو ہر کوئی لگا سکتا ہے تاہم اسے ہارمونیم کے سر کے ساتھ ملانا اور سمجھ کے بنانا، وہ گُر ہے جو بزرگوں سے سیکھنا پڑتا ہے۔‘

رفاقت علی کے قریب ہی بیٹھے نظر کا چشمہ لگائے محمد امین انتہائی مہارت سے ہارمونیم کے سرملا رہے تھے جنہوں نے مجھے اپنی طرف متوجہ کرتے کہا کہ وہ پینتالیس سال سے ہارمونیم بنا رہے ہیں، تاہم اب نظر کمزور ہونے کیوجہ سے وہ بس ہارمونیم کی ٹیوننگ وغیرہ کرتے ہیں۔ البتہ اب ان کے دو بیٹے اس کام کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔

محمد امین نے پینتالیس سال پہلے کی منظر کشی کرتے ہوئے بتایا: ’اس ٹائم بہت کام تھا، مرمتیں بھی کرتے تھے، نئے ساز بھی بناتے تھے، اب تو ڈسکو میوزک ہے اور ہارمونیم کی جگہ گٹار نے لے لی ہے۔‘

اگر گٹار ہی مقبول ہے تو پھر باقی سازوں کے خریدار نہیں ہیں کیا؟ اسی گلی کے ایک دکاندار محمد اشرف نے یہ معمہ حل کیا۔

’افعانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد جب وہاں دوبارہ روایتی موسیقی کا دور شروع ہوا تب سے اب تک جتنا طبلہ یہاں بنتا ہے اس کا اسی، نوے فیصد افغانستان جاتا ہے۔‘

110215005817_muscial_instruments_lahore_226x170_bbc_nocredit.jpg

اور محمد امین کے بقول یوں تو دور دراز کے علاقوں سے بھی لوگ یہاں آتے ہیں لیکن ہارمونیم، دف اور طبلے کی سب سے زیادہ طلب افغانستان میں ہے اور تقریباً ہر چھ ماہ بعد افغانی ان سے مال لے جاتے ہیں۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردی کی پھیلتی وبا نے اس کاروبار کو اب تک متاثر نہیں کیا؟ اس کا جواب محمد امین یوں دیتے ہیں۔

’طالبان تو بہت برا مناتے ہیں موسیقی وغیرہ کا ، لیکن پھر افغانستان مال کیوں جاتا ہے، لوگ آتے ہیں مال لے جاتے ہیں، اگر برا مناتے ہیں تو سب سے بڑے خریدار بھی تو وہی ہیں۔‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس گلی میں موجود یہ تمام ہنر مند نسل در نسل منتقل ہونے والے اس فن کو اب تک قائم رکھے ہوئے ہیں اور اب تک ساز بنانے یا ٹیون کرنے کی تربیت کا کوئی باقاعدہ ادارہ ملک میں موجود نہیں ہے۔ساتھ ہی یہ گلی کے بہت سے نوجوانوں کے لیے معقول ذریعہ معاش بھی ہے۔

ایسے ہی ایک نوجوان محمد عمران نے کانگو میں سانچہ فٹ کرتے ہوئے بتایا کہ چار پانچ سال پہلے انہوں نے یہاں کام شروع کیا اور آج وہ گٹار کی تاریں وغیرہ ڈال لیتے ہیں، ہارمونیم کی مرمت کر لیتے ہیں اور گاہکوں سے بات بھی کر لیتے ہیں اور اس کام کی انہیں دس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے ۔

لاہور کا بازار حسن تو نہیں رہا ، تاہم ورثے میں یہ گلی چھوڑ گیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ غیر ملکی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرنے والی سازندوں کی یہ گلی اور اس سے جڑے ہنر مند، حکومت کی توجہ کے طالب ہیں، اور اگر اس کام کو باقاعدہ صنعت کا درجہ دیا جائے تو یقیناً ملک میں زر مبادلہ لانے کا یہ ایک اچھا ذریعہ ہے۔
ربط
http://www.bbc.co.uk/urdu/entertainment/2011/02/110214_instruments_street_rza.shtml
 
بازار حسن ختم کرنے سے گلی محلے چکلے کھل گئے ہیں کم عقل قسم کے لوگوں نے اس کو بند کرکے پورے ملک میں گند پھیلا دیا ہے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top