شاہ راہِ قراقرم کے عجائبات

جاسم محمد

محفلین
شاہ راہِ قراقرم کے عجائبات
ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بخاری اتوار 30 جون 2019
1722737-shahraqaraqaram-1561735209-434-640x480.jpg

جنکشن پوائنٹ جیسا مقام دنیا میں کہیں نہیں،عظیم الشان راہ گزر پر دل چسپ سفر کی روداد


شاہراہ قراقرم پاکستان کے شمال میں واقع وہ عظیم راستہ ہے جو وطنِ عزیز کو چین سے ملاتا ہے۔ اسے ’’قراقرم ہائی وے‘‘ ، این-35 اور ’’شاہراہِ ریشم‘‘ بھی کہتے ہیں۔

یہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہوئی درۂ خنجراب کی 4693 میٹر بُلندی سے ہو کر چین کے صوبہ سنکیانگ کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے ملاتی ہے۔ یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ ہے۔

شاہراہِ قراقرم بیس سال کے عرصے میں 1986ء مکمل ہوئی اور اسے پاکستان اور چین نے مل کر بنایا ہے۔ اس کی تعمیر کرتے ہوئے 810 پاکستانیوں اور 82 چینیوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ، یوں یہ ملکِ پاکستان کی سب سے زیادہ سڑک ہے۔ اس کی لمبائی 1300 کلومیٹر ہے۔ یہ چینی شہر کاشغر سے شروع ہوتی ہے اور خنجراب، سوست، پسو، عطاآباد، کریم آباد، علی آباد، ہنزہ، نگر، گلگت، دینیور، جگلوٹ، چلاس، داسو، پٹن، بشام، مانسہرہ، ایبٹ آباد, ہری پورہزارہ سے ہوتی ہوئی حسن ابدال کے مقام پر جی ٹی روڈ سے ملتی ہے۔

دریائے سندھ، دریائے گلگت، دریائے ہنزہ، عطاآباد جھیل، کئی قدیم کندہ چٹانیں، قبرستان، یادگاریں، نانگا پربت اور راکاپوشی کی چوٹیاں، متعدد گلیشیئرز اور معلق پُل اس کے ساتھ ساتھ واقع ہیں۔ یوں ہ شاہراہ دنیا کے ان راستوں میں سے ایک ہے جن کی سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی اہمیت انتہائی زیادہ ہے۔ شاہراہ قراقرم کے مشکل پہاڑی علاقے میں بنائی گئی ہے اس لیے اسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہتے ہیں۔

یوں تو اس شاہراہ پر کئی لوگ کئی بار سفر کر چکے ہیں لیکن سب کے مشاہدات میں فرق ہوتا ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ آپ کو اُن تمام علاقوں کے منفرد اور انوکھے پہلوؤں سے روشناس کراؤں جہاں سے یہ سڑک گزرتی ہے۔ قراقرم ہائی وے کب کیسے اور کتنی قربانیوں کے بعد بنی یہ میں آپ کو بتا چکا ہوں۔ جاننے کی بات یہ ہے کہ یہ شاہراہ پہلے تھاکوٹ ضلع بٹگرام سے شروع ہوتی تھی لیکن پھر اسے ایکسٹینشن دے کر حسن ابدال تک کھینچ دیا گیا۔ اب تو اس میں ہزارہ موٹروے کا کچھ حصہ بھی شامل ہے، لیکن مجھ جیسے سیاحوں کو تو تھاکوٹ پل دیکھ کر ہی قراقرم روڈ والی فیلنگ آتی ہیوں تو اللّٰہ پاک نے پاکستان کے شمال کو ہر نعمت اور خوب صورتی سے نوازا ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر شاہراہِ قراقرم نہ ہوتی تو شاید یہ خوب صورتی بھی ہم میں سے بہت سوں کی نظروں سے اوجھل رہتی۔ یہ روڈ وسیلہ ثابت ہوئی ہے گلگت بلتستان کے حُسن و ثقافت کو ہم تک بہ آسانی پہنچانے کا۔ آئیں اس عجوبہ نما سڑک پر اپنا سفر شروع کرتے ہیں اور دیکھے ان دیکھے حسن کو کھوجنے کی کوشش کرتے ہیں۔

شاہراہِ قراقرم پنجاب میں حسن ابدال اور ہزارہ ڈویژن میں حویلیاں، ایبٹ آباد، مانسہرہ، بٹگرام اور بٹل کے خوب صورت علاقوں سے گُزر کر تھاکوٹ پہنچتی ہے. تھاکوٹ ضلع بٹگرام کا آخری قصبہ ہے جس کے بعد ضلع شانگلہ شروع ہوجاتا ہے۔ تھاکوٹ ہی وہ جگہ ہے جہاں شیر دریا، سندھ آپ کا ہم سفر بنتا ہے اور بنتا ہی چلا جاتا ہے یہاں تک کہ آپ اس سے تنگ آ جاتے ہیں۔

تھاکوٹ کے خوب صورت چینی ساختہ پل پر سے ہو کر آپ بشام سے گزرتے ہیں جو کوہستان سے پہلے اس روٹ کا آخری بڑا شہر ہے. پھر کچھ ہی دیر بعد ضلع کوہستان شروع ہو جاتا ہے۔

یہاں میں آپ کو بتاتا چلوں کہ کوہستان ایک وسیع علاقہ ہے جو خشک و چٹیل پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ دیر کوہستان، سوات کوہستان، اپر کوہستان، لوئر کوہستان اور چلاس کوہستان پر مشتمل ہے۔ یہ پہلو بہ پہلو چلتا ہوا پہاڑی سلسلہ ہے جس کی خاصیت بنجر پن اور چٹیل پہاڑ ہیں۔

عموماً کوہستان سے ہم خیبرپختونخواہ کا ضلع مراد لیتے ہیں جو کومیلا سے شروع ہو کر سازین تک جاتا ہے اور یہاں قراقرم ہائی وے کا سفر انتہائی کٹھن، تھکا دینے والا اور لمبا ہے۔

6-1561735119.jpg


پاکستان کی تمام وادیوں کی شاہ رگ کوئی نہ کوئی دریا ہے جو اس وادی کو نہ صرف تمدن کی روشنی بخشتا ہے بلکہ اس کی تمام معاشرتی و معاشی زندگی کا دارومدار اسی دریا پر ہوتا ہے۔ کوہستان کی وادی کی لائف لائن دریائے سندھ ہے جو گلگت بلتستان سے اس علاقے میں داخل ہوتا ہے اور پورے کوہستان میں شاہراہِ قراقرم کے ساتھ ساتھ ایک لاڈلے بچے کی طرح چلا جاتا ہے۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ شاہراہ ریشم اور قراقرم میں فرق ہے۔ شاہراہِ ریشم وہ تمام راستے تھے جو چین سے وسط ایشیا کے ذریعے یورپ تک ریشم کی تجارت کے لیے استعمال کیے جاتے تھے، جب کہ شاہراہ قراقرم وہ سڑک یا راستہ ہے جو شاہراہ ریشم کے راستوں کے کچھ حصوں پر بنائی گئی ہے۔ اس کو میں آگے چل کر ذرا تفصیل سے بیان کروں گا۔

کوہستان کے پہاڑ سختی، جانفشانی، کٹھنائیوں اور محنت کی علامت ہیں۔ مانا کہ سوات و مری کے پہاڑ زیادہ جاذبِ نظر ہیں مگر دریائے سندھ کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے کوہِ قراقرم کے یہ پہاڑ اپنے اندر ایک عجیب حسن رکھتے ہیں بشرطے کہ دیکھنے والی آنکھ میسر ہو۔ انہی چٹیل پہاڑوں پر سے دودھ سے سفید جھرنے اٹھکیلیاں کرتے نیچے آتے ہیں اور سندھ کے گدلے پانی میں مل کر اپنے وجود کی نفی کرتے ہیں۔

اسی طرح چھوٹی چھوٹی آبشاریں بھی انہی پہاڑوں سے یوں گرتی ہیں کہ جسے پتھروں کے آنسو۔ یہاں دریائے سندھ کا گدلا، میلا اور پھیکا پانی ٹھاٹھیں مارتا ہوا گزرتا ہے۔ داسو اس علاقے کا مرکزی شہر ہے جو بالکل قراقرم ہائی ویپر واقع ہے جہاں داسو ہائیڈروپاورپروجیکٹ کے علاوہ کوئی خاص قابل ذکر بات نہیں ہے۔

اس سے آگے ثمر نالا کے مقام پر ایک بڑا نالہ دریائے سندھ کا حصہ بنتا ہے۔ یہاں کچھ چھوٹے چھوٹے ہوٹل بھی ہیں جہاں کام کرنے والوں کو اپنے کوہستانی ہونے پر فخر ہے۔ ان کے بقول ’’ہم کوہستانی مرد محنت و جفاکشی کا دوسرا نام ہیں‘‘ اور یہ بات بالکل درست ہے۔ پاکستان کے شمال میں اس سے زیادہ سخت علاقہ اور کوئی نہیں جہاں زندگی گزارنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ سہولیات سے عاری کوہستان گرم، بے رنگ اور چٹیل پہاڑوں، دور دور بسائی گئی آبادیوں، چھوٹے بڑے پُلوں، لوازماتِ زندگی سے عاری قصبوں اور گدلے سے دریائے سندھ پر مشتمل ہے۔

ثمر نالے کے بعد سازین آتا ہے جو گلگت بلتستان کی جانب کوہستان کی آخری بڑی آبادی ہے اور پھر تھور کے بعد گلگت بلتستان شروع ہو جاتا ہے جہاں ”ویلکم ٹو لینڈ آف ماؤنٹینز” کا بورڈ آپ کا استقبال کرتا ہے۔ اب آپ چِلاس کوہستان میں داخل ہوچکے ہیں جو گلگت

بلتستان کے ضلع دیامیر میں واقع ہے۔ یہیں ایک جگہ گزرتے ہوئے سڑک کے قریب مجھے تعمیراتی سامان رکھا نظر آ یا۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہی بدنصیب دیامیر بھاشا ڈیم کی مجوزہ سائیٹ ہے جہاں گلگت بلتستان کا سب سے بڑا ڈیم بننے جا رہا ہے لیکن افسوس کہ یہاں کام کی رفتار نہ ہونے کے برابر ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم کا بند گلگت بلتستان جبکہ اسکی جھیل پختونخواہ میں بنے گی جس پر دونوں صوبوں میں رائیلٹی کا مسئلہ حل طلب ہے۔ امید ہے کہ یہ جلدی حل ہو جائے تاکہ ہم بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔

چلاس، جہاں اکثر گرمی کا راج ہوتا ہے ایک بڑا اور قدیم شہر ہے جہاں سے بہت پہلے قدیم تجارتی قافلے گزرا کرتے تھے جسکی نشانی یہاں موجود ”تھلپان کی چٹانیں” ہیں۔ چلاس کے پاس اس جگہ پر مختلف چٹانوں پر کئی ہزار سال قدیم بدھا کی تصاویر اور مختلف حروف کندہ ہیں جو اس بات کی طرف اِشارہ کرتے ہیں کہ بدھ مت کے عروج کے دور میں یہ کوئی مقدس مقام رہا ہو گا۔ لیکن ہماری ازلی بے حسی اور آرٹ سے نابلدی، ان چٹانوں پر کسی مردانہ کم زوری سے متاثر دل جلے نے مختلف اشتہار پینٹ کر کہ اس کی تصویروں کو چھپا دیا ہے لیکن ابھی بھی اس کو صاف کیا جا سکتا ہے۔

چِلاس کا انتظام وفاقی ادارے چلاتے ہیں، جو انتظام برائے شمالی علاقہ جات کے تحت ہوتا ہے۔ موسم گرما میں یہاں گرم اور مرطوب جب کہ سردیاں خشک اور سرد ہوتی ہیں۔ یہاں پہنچنے کے دو بڑے راستے ہیں۔ پہلا راستہ شاہراہ قراقرم جب کہ دوسرا وادی کاغان سے ہوتے ہوئے دربابوسر سے ہے۔ وادی چلاس کے عین وسط سے دریائے سندھ بہتا ہے اور غیرملکی افراد کو یہاں سفر کرنے اور عارضی رہائش کے لیے خصوصی اجازت درکار ہوتی ہے۔ چلاس سے آگے ایک زیرِتعمیر یونیورسٹی کی عمارت ہے جس کے لیے زمین مقامیوں نے حکومت کو تحفتاً پیش کی ہے واقعتاً گلگت بلتستان کو اب نئی یونیورسٹیوں کی اشد ضرورت ہے۔

7-1561735123.jpg


چلاس کے بعد کچھ چھوٹے چھوٹے قصبے آتے ہیں جہاں سیاحوں کے لیے ہوٹل اور ریزارٹ بنائے گئے ہیں۔ پتا چلا کہ یہ ابھی کچھ سال پہلے بنے ہیں۔ یہ دیکھ کر لگتا ہے کہ اب واقعی پاکستان ایک بڑی ٹریول ڈیسٹینیشن بنے گا، ان شاء اللہ۔

آگے چلیں تو آپ کا سامنا رائے کوٹ کے پُل سے ہو گا جہاں سے نانگا پربت کے بیس کیمپ ”فیری میڈوز” کو راستہ جاتا ہے جو ایک انتہائی خوب صورت جگہ ہے۔ یہاں سے آگے قراقرم ہائی وے کا حلیہ ہی بدل جاتا ہے۔ ٹوٹی پھوٹی سی روڈ یک دم نئی نویلی دلہن کی طرح سج دھج کر سامنے آ جاتی ہے۔

دور حدِ نظر سے آگے کہیں

زندگی اب بھی مسکراتی ہے

(اتباف ابرک)

کچھ آگے سفر کریں تو ایک راستہ استور کو مُڑتا ہے جو آگے راما، چِلم چوکی، بُرزیل پاس اور دیوسائی سے ہو کر اسکردو تک جاتا ہے۔ یہاں سے چلتے چلتے آپ کو نانگا پربت ویو پوائنٹ کا بورڈ نظر آئے گا جہاں سے اس ہیبت ناک پہاڑ کا سحر انگیز نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ پہاڑ سر کرنا بہت مشکل ہے اور اسی خواہش میں کئی کوہ پیما اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں تبھی ہم جیسے اسے دیکھ کر ٹھنڈی آہیں ہی بھر سکتے ہیں۔

آگے چل کر جگلوٹ کے بعد اس سڑک پر میرا پسندیدہ مقام ’’جنکشن پوائنٹ‘‘ آتا ہے۔ ایسا مقام دنیا بھر میں اور کہیں نہیں تبھی تو کہتے ہیں کہ پاکستان خدا کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت ہے۔ گلگت شہر سے 45 کلومیٹر جنوب میں واقع اس جگہ دنیا کے تین عظیم اور ہیبت ناک پہاڑی سلسلے ہندوکش، قراقرم اور ہمالیہ ملتے ہیں اور انہی کی گود میں دریائے گلگت اور سندھ کا سنگم ہوتا ہے۔ یعنی ایک ہی جگہ تین سمتوں میں آپ تین مختلف پہاڑی سلسلوں اور دو بڑے دریاؤں کا نظارہ کر سکتے ہیں۔

پہاڑ، دشت، سمندر، ٹھکانے دریا کے

زمیں کو رنگ مِلے ہیں بہانے دریا کے

(ظہیر احمد)

یہ جگہ قراقرم ہائی وے کے بالکل کنارے پر واقع ہے۔ چار سال پہلے جب میرا یہاں سے گزر ہوا تھا تو یہاں ایک بورڈ ہوا کرتا تھا جس پر اس جگہ کی تفصیل درج تھی۔ اب جب گیا تو یہ جگہ بن رہی تھی بورڈ بھی غائب تھا اور اوپر بنا مانومنٹ بھی۔ یہاں سے کچھ آگے ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک اسکردو تک جاتی ہے جو آج کل زیرِتعمیر ہے۔

اس علاقے میں قراقرم ہائی وے کسی ایسی خوب رو دوشیزہ کی طرح لگتی ہے جو محبوب کے لیے خوب ہار سنگھار کیے بیٹھی ہو۔ سامنے برف پوش چوٹیوں کا نظارہ، مٹیالا سندھو دریا، کناروں پر چیری اور خوبانی سے بھرے شاپر تھامے ننھے منے بچے، خوب صورتی یہ نہیں تو اور کیا ہے؟

تبھی تو گلگت بلتستان کو پاکستان کے سر کا تاج کہا جاتا ہے۔ نہ صرف یہ انتہائی دل کش و حسین ہے بلکہ اگر آپ پاکستان کا نقشہ دیکھیں گے تو یہ سب سے اوپر واقع ہے جیسے کسی شہنشاہ کے سر پر تاج ہو۔ لگے ہاتھوں اس علاقے کا کچھ تعارف ہو جائے۔

گلگت بلتستان کا کل رقبہ تقریباً 119985 مربع کلومیٹر ہے، اس کی آبادی تقریباً چودہ لاکھ چھیانوے ہزار سات سو ستانوے نفوس پر مشتمل ہے۔ دو ڈویژنوں گلگت، بلتستان پر مشتمل اس مجوزہ صوبے کا مرکزی مقام گلگت ہے، جب کہ ان ڈویژنز کو اسکردو، گانچھے، شِگر، خرمنگ، گلگت، غذر، ہُنزہ، نگر، دیامیر اور استور میں تقسیم کیا گیا ہے۔

اردو کے علاوہ یہاں پر بلتی، شینا، بروشسکی، کشمیری، واخئی، کوہواری اور کوہستانی زبانیں بولی جاتی ہیں۔

شمالی علاقہ جات کے شمال مغرب میں افغانستان کی۔ واخان کی پٹی ہے جو پاکستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے جب کہ شمال مشرق میں چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کا ایغور کا علاقہ ہے۔ جنوب مشرق میں مقبوضہ کشمیر، جنوب میں آزاد کشمیر جب کہ مغرب میں صوبہ خیبر پختونخواہ واقع ہیں۔

8-1561735126.jpg


دنیا کے بلندترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے کوہ قراقرم، کوہ ہمالیہ اور کوہ ہندوکش تینوں یہاں موجود ہیں۔ یہاں پر سات ہزار میٹر سے زائد بلند 50چوٹیاں واقع ہیں، اسی طرح تین بڑے گلیشیئر بھی یہیں واقع ہیں۔ دنیا کا بلند ترین محاذ جنگ سیاچن گلیشیئر بلتستان کے ضلع گانچھے کے پہاڑی سلسلے قراقرم میں واقع ہے تاہم متنازع ہونے کی وجہ سے کبھی اسے بلتستان میں شمار کیا جاتا ہے اور کبھی نہیں۔

مناور اور جٹیال (یہیں سے ایک روڈ گلگت شہر کو مڑتی ہے) سے ہو کر ہم دینیور پہنچتے ہیں۔ دریائے گلگت کے کنارے واقع دینیور شہر سرسبز کھیتوں اور پاپولر کے گھنے درختوں کے حوالے سے مشہور ہے۔ دینیور کی سرنگ کے اوپر شاہ سلطان علی عارف کا مزار، دریائے گلگت پر دینیور کا منہدم شُدہ معلق پُل، چینی انجنیئرز کا قبرستان اور آثارِقدیمہ سے تعلق رکھے والی دینیور کی کُندہ چٹانیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔

شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ اب تک تقریباً 20 ہزار سے زائد ایسی چٹانیں اور مقامات دریافت ہوئے ہیں جو قدیم تہذیبی اہمیت کی حامل ہیں۔ شمالی علاقہ جات میں ہنزہ اور ہربن کی جانب دس بڑی جگہیں آثارقدیمہ کی موجودگی کی وجہ سے نہایت اہم ہیں۔ یہ آثار حملہ آوروں، تاجروں اور زائرین کی یادگار ہیں جنھوں نے اس قدیم تجارتی راہدری میں سفر کیا۔ 5000 اور 1000 قبل مسیح کے درمیانی عرصہ میں ان آثار میں کثرت سے جانوروں، تکونی انسان اور شکار کی شبیہات جن میں جانور انسانوں سے بڑے دکھائے گئے ہیں، ملتی ہیں۔ یہ آثار پتھریلی چٹانوں پر نقش ہیں جن کو پتھر کے اوزاروں سے بنایا گیا ہے۔

آئیے قراقرم کے ان عجائبات کی تفصیلی سیر کرتے ہیں۔

٭بِرینو کا معلق پُل:

یہ پُل گلگت بلتستان کے سب سے پرانے معلق پُلوں میں سے ایک ہے جسے 1960 میں ہُنزہ سے تعلق رکھنے والے انجنیئر احمد علی برینو مرحوم نے بنایا تھا اس مناسبت سے اسے ”برینو کا پُل” بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی لمبائی 510 فٹ ہے۔ یہ پُل ا س جگہ سے 2 کلومیٹر دور ہے جہاں دریائے ہُنزہ، دریائے گلگت میں ضم ہوتا ہے۔ یہ پل صرف چھوٹی گاڑیوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ بعد میں اس کے قریب ایک متبادل کنکریٹ کا پل بنا دیا گیا۔ 2018 میں اس کی مرمت کی گئی اور سڑک پر لکڑی کا خوب صورت جنگلہ لگا کر اسے ایک سیاحتی پوائنٹ بنا دیا گیا۔ آج کل یہ سیاحوں کی من پسند جگہ ہے جس پر صرف پیدل افراد اور موٹر سائیکلز چل سکتے ہیں۔

٭دینیور کی کُندہ چٹانیں:

شاہراہ قراقرم کے ساتھ واقع قدیم آثارِ قدیمہ میں سے ایک دینیور کی چٹانیں ہیں جو ساتویں اور آٹھویں صدی سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہیں سب سے پہلے 1958 میں کارل جیٹمر نے دیکھا تھا جن پر مختلف جانوروں کی شکلیں اور الفاظ کُندہ تھے۔ یہ جگہ سیاحوں میں بہت زیادہ مشہور نہیں ہے۔ چند آثارِقدیمہ کی تنظیموں اور تحقیقی ماہرین کے علاوہ ان تک کوئی نہیں پہنچتا۔

٭چینی قبرستان:

مقامی طور پر ’’چائینہ یادگار‘‘ کے طور پر جانا جانے والا یہ قبرستان ان چینی انجینئرز اور مزدوروں کی آخری آرام گاہ ہے جنہوں نے 1960 اور 70 کی دہائی میں قراقرم ہائی وے کی تعمیر کو اپنے لہو سے سینچا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے چین کی قربانیوں کا مظہر ہے جو بالکل قراقرم روڈ کے اوپر ہے اور آپ اسے دیکھ سکتے ہیں۔

٭یادگارِ شہدا شاہراہِ ریشم:

قراقرم ہائی وے پر آگے چلیں تو سائیڈ پر ایک اونچے چبوترے پر پیلے رنگ کی ڈِرل مشین لگی نظر آئے گی۔ یہ گلگت بلتستان کے اُن بہادر لوگوں کی یادگار ہے جنہوں نے اس خونی سڑک کی تعمیر میں اپنی زندگیاں پیش کیں تاکہ گلگت بلتستان کی آنے والی نسلیں اس شاہراہ کی بدولت ترقی کریں اور خوشیوں کے دن دیکھ سکیں۔ اس میموریل مانومنٹ پر لکھے گئے الفاظ یہ ہیں؛

MEMORIAL 103 EB (Engineering Battalion)

In memory of their gallant men who proffered to make the Karakorams their permanent abode.

In that rich soil a richer dust conceals.

1966-1972

٭قدیم سِلک روٹ:

کُچھ آگے جا کر ایک بورڈ پر نظر پڑی لکھا ہوا تھا ’’اولڈ سِلک روڈ‘‘ اور بائیں ہاتھ پر موجود تنگ پہاڑی راستے کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ یہ پہاڑی پر سے گزرتے قدیم سِلک روٹ کے بچے کھچے وہ ٹکڑے ہیں جو آج کل صرف مقامی افراد کے استعمال میں ہیں جہاں سے وہ روزانہ اپنی بھیڑ بکریاں چرانے نیچے لے کر آتے ہیں۔

اس بورڈ کے مطابق یہ چینی تاجروں کا ریشم کی تجارت کے لیے استعمال کیا جانے والا وہ قدیم راستہ ہے جسے ’’شاہراہِ ریشم‘‘ یا سِلک روٹ کا نام دیا گیا ہے۔ عہدِقدیم کے ان تجارتی راستوں کو مجموعی طور پر شاہراہ ریشم کہا جاتا ہے جو چین کو ایشیائے کوچک اور بحیرۂ روم کے ممالک سے ملاتے ہیں۔ یہ گزر گاہیں کل 8 ہزار کلو میٹر (5 ہزار میل) پر پھیلی ہوئی تھیں۔

شاہراہ ریشم کی تجارت چین، مصر، بین النہرین، فارس، برصغیر اور روم کی تہذیبوں کی ترقی کا اہم ترین عنصر تھی اور جدید دنیا کی تعمیر میں اس کا بنیادی کردار رہا ہے۔ شاہراہ ریشم کی اصطلاح پہلی بار جرمن جغرافیہ داں فرڈیننڈ وون رچٹوفن نے 1877ء میں استعمال کی تھی۔ اب یہ اصطلاح پاکستان اور چین کے درمیان زمینی گزر گاہ شاہراہ قراقرم کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے جو کہ غلط ہے کیوںکہ قراقرم زیادہ تر ان علاقوں سے گزرتی ہے جو سلک روٹ کا حِصہ نہیں رہے۔

مصنف ڈاکٹر برکت علی کاکڑ کے مطابق،’’ قدیم شاہراہ ریشم کے دھندلے خدوخال سے پتا چلتا ہے کہ کسی زمانے میں ہزاروں اونٹ اور باربرداری کے دیگر چوپائے روم سے چین تک غالباً چار ہزار میل کی مسافت طے کرتے تھے۔ اس مسافت کے دوران بعض اوقات بچوں کی ولادت ہوجاتی جو اپنی آبائی سر زمین تک پہنچتے پہنچتے سات، آٹھ سال کی عمر کو پہنچ جاتے۔ سیاہ داڑھی کے ساتھ جانے والے واپسی پر بالوں اور داڑھی میں چاندنی لے کر آتے۔ دن کو اوسط 40 کلومیل کا فاصلہ طے کیا جاسکتا تھا، لہٰذا، ہر 40 میل بعد ایک کاروان سرائے تعمیر کیا گیا تھا جسے عرف عام میں ربط بھی کہتے تھے۔ یہاں پر تھکے ماندے مسافروں کے آرام اور استراحت کا پورا انتظام موجود ہوتا تھا۔ یہ کاروان سرائے جو بعد میں رفتہ رفتہ شہروں کی شکل اختیار کر گئے، ان میں حجام اور طبیب کی دکانیں ساتھ ساتھ ہوتیں۔ انہی سے متصل کیمیاگر یا دواساز ڈیرہ ڈالتے۔ اس کے پہلو میں کوئی کاتب، جوتا بنانے اور سلائی کرنے والا موچی ہوتا، درزی، لکڑہارا، تو ویسے بھی اس وقت کے ایسے کردار ہیں جن کا تذکرہ عام قصوں کہانیوں میں بھی مل جاتا ہے۔ اسی طرح یہاں پر فال گر یا فال نکالنے والوں، مداریوں اور کرتب دکھانے والوں کے ساتھ موسیقار، آرٹسٹ اور سب سے بڑھ کر داستان گو موجود تھے جو خصوصاً رات کو مسافروں کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے قصے کہانیاں سناتے یا پھر نَے اور نَے کا دور چل نکلتا۔ اس قدیم شاہراہ کو اگر ہم موجودہ افغانستان اور پاکستان میں دوبارہ دریافت کرنے کی کوشش کریں تو اس میں یقیناً مشکل نہیں ہوگی۔‘‘

کاکڑ صاحب ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

’’شاہراہ ریشم پر صرف اشیائے ضرورت اور خورد و نوش کی خریدوفروخت اور نقل و حرکت نہیں ہوتی تھی، بلکہ اس تاریخی شاہراہ نے افکار، نظریات، اساطیر، عقائد، ادب، آرٹ، زبانوں اور ثقافتوں کی اتصال میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ اس شاہراہ کی سیاسی اہمیت اپنی جگہ، اس پر واقع اہم ترین قومیں اور جغرافیائی وحدتیں اپنی جگہ انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ پانچ سوسال تک نظر انداز کیے گئے پاکستان اور افغانستان کے وہ حصے جو شاہراہ ریشم کے دہانے پر واقع ہیں اور جس سے یورپ اور ایشیا کے ثقافتی، تہذیبی، معاشی اور سیاسی وصلت ممکن ہوئی ہے، نے آج ایک دفعہ پھر اہمیت اختیار کی ہے‘‘۔

(جاری ہے)
 

جاسم محمد

محفلین
1730594-shahraqaraqaram-1562261089-794-640x480.jpg

بلتت فورٹ جیسے کسی پری کا گھر، وہ جگہ جہاں سے باغیوں کو دریائے ہنزہ میں پھینک دیا جاتا تھا

دوسری قسط

یہ تو تھی شاہراہِ ریشم کی کہانی، قراقرم پر ہم اپنا سفر وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے چھوڑا تھا۔ دینیور سے کچھ آگے گلگت بلتستان کا ضلع نگر شروع ہو جاتا ہے جہاں وادیٔ نگر اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ زمین کے تخت پر براجمان ہے۔ نگراصل میں ایک بہت بڑی وادی ہے جس میں چِلت، بار، نِلت، جعفرآباد، تھول، مسوت اور گلمت کی چھوٹی چھوٹی وادیاں شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ تو قراقرم ہائی وے پر ہیں اور باقی اس سے ذرا ہٹ کر واقع ہیں۔ یہاں پر بھی کئی تاریخی و ثقافتی جگہیں دیکھنے کے قابل ہیں چلیں ان کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہوں۔

٭زمینی پرتوں کے ٹکراؤ کی جگہ؛

سِلک روٹ کے ٹکڑوں سے آگے چلت وادی کے قریب ہی بین البراعظمی پلیٹس کے ٹکراؤ کی جگہ ہے۔ یہ گلگت سے شمال میں 53 کلومیٹر کے فاصلے پر قراقرم ہائی وے پر واقع ہے۔ کہتے ہیں کہ کوئی 5 کروڑ سال پہلے اس جگہ انڈین اور یورشین پلیٹس آپس میں ٹکرائی تھیں جس کے نتیجے میں سطحِ مُرتفع تبت اور کوہِ ہمالیہ کا سلسلہ وجود میں آیا۔ اسی طرح زمین کی پرتوں پر شدید دباؤ کے نتیجے میں قراقرم کے پہاڑوں نے سر اُٹھایا۔ یہ جگہ بھی سیاحوں کی من پسند جگہ ہے۔

٭راکاپوشی ویو پوائنٹ؛

آگے چل کر یہاں کا سب سے سحرانگیز مقام غُلمِت میں واقع ’’راکاپوشی ویو پوائنٹ ‘‘ہے جہاں سے آپ کئی زندگیاں نگلنے والے اس قاتل پہاڑ کا وحشی نظارہ کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ راکاپوشی کا قریب ترین نظارہ ہے۔ یہ جگہ وسطی قراقرم نیشنل پارک میں شامل ہے جو خطرے سے دوچار مارکوپولو شیپ، برفانی تیندوے، بھورے ریچھ اور دیگر کچھ جانوروں کا مسکن ہے۔ اس ویو پوائنٹ پر کھڑے ہو کر آپ 1950 میٹر کی بلندی پر زمین کی سب سے اونچی سالِم ڈھلوان کو دیکھ سکتے ہیں۔ راکاپوشی دنیا کا اکلوتا ایسا پہاڑ ہے جو زمین کی سطح سے سیدھا کئی کلومیٹر تک بلند پے۔ سمٹ سے لیکر بیس کیمپ تک اسکی متواتر بلندی 6000 میٹر ہے جو اسکو ہم جیسوں کے لیے ہیبت ناک اور مہم جوؤں کے لیے دل کش بنانے کے لیے کافی ہے۔

آج سے بائیس تئیس سال پہلے یہاں راکاپوشی ویو پوائنٹ کے بورڈ کے سوا کچھ نہ تھا۔ آہستہ آہستہ یہ جگہ ترقی کرتی رہی اور ایک بہت بڑے بازار کے روپ میں یہ ہمارے سامنے ہے۔ یہ میری پسندیدہ جگہوں میں سے ایک ہے۔ یہاں سیاحوں کا خوب رش ریتا ہے۔ تازہ خوبانی اور مزے دار کالی چیری یہاں وافر موجود ہے۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان کی خاص ڈِش ”چاپشورو/شارپشورو” بھی یہاں تازہ بنائی جاری ہے جسے اکثر لوگ شوق سے کھاتے ہیں۔ یہ ایک قسم کا لوکل پیزا ہے جس کی تفصیل بعد میں بیان کروں گا۔ خشک خوبانی، اشکین اور دیگر جڑی بوٹیاں بھی یہاں سے آپ کو سستی مل جائیں گی۔ نوادرات، دست کاریوں اور مقامی مصنوعات کا بھی ایک بڑا سٹور یہاں موجود ہے جو میرے خیال میں مناسب قیمتوں پر سامان مہیا کر رہا ہے۔ غرض یہ جگہ اچھی اور سستی شاپنگ کے لیے ایک آئیڈیل جگہ ہے۔

٭علی آباد؛

غُلمِت سے آگے ’’آباد‘‘ لاحقوں والے علاقے شروع ہوجاتے ہیں جن میں ناصر آباد، مرتضیٰ آباد، حسن آباد، علی آباد وغیرہ شامل ہیں۔

علی آباد گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ نگر کا تجارتی علاقہ ہے۔ دریائے ہنزہ کے کنارے آباد یہ شہر ضلع ہنزہ۔ نگر کا صدر مقام ہے۔ ڈپٹی کمشنر اور ضلعی فاریسٹ آفیسرز سب کے دفاتر یہیں واقع ہیں۔ علی آباد کے بازار سے ذرا اوپر پہاڑ پر ایک خوب صورت گیسٹ ہاؤس ” بیگ گیسٹ ہاؤس” واقع ہے جسے گلگت بلتستان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کا ایک گروپ اپنے والد دیدار علی کی سربراہی میں چلا رہا ہے۔ یہ نوجوان پنجاب کی اعلیٰ یونیورسٹیوں سے تعلیمِ یافتہ ہیں اور اپنی نوکریوں کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے میں سیاحوں کو سہولت بھی پہنچا رہے ہیں۔ ان سے بات کرنے پر آپ کو پتا چلتا ہے کہ یہ اپنے علاقے، اپنے گلگت بلتستان کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ آگے چل کر میں ان سے ہوئی گفتگو کا احوال شیئر کروں گا۔ اس جگہ آپ نہ صرف قریبی برفانی چوٹیوں کا دل کش نظارہ کر سکتے ہیں بلکہ مارخور کی کھوپڑی اور سینگ بھی دیکھ سکتے ہیں جو گیسٹ ہاؤس انتظامیہ نے زینت و آرائش کے طور پر لٹکا رکھے ہیں۔

٭گنیش؛

علی آباد کے بعد وادیٔ ہنزہ کا قدیم ترین قصبہ ’’گنیش‘‘ واقع ہے جو سِلک روڈ پر بسائی گئی سب سے پہلی اور پرانی آبادی تھی۔ یہاں بہت سی قدیم نگہبان چوکیاں (واچ ٹاور)، روایتی مسجدیں اور مذہبی سینٹر قائم تھے جن میں سے کچھ آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایک بڑے شکاری ٹاور کے ساتھ بنا 400 سالہ ’’علی گوہر ہاؤس‘‘ یہاں کی پہچان ہے جسے 2009 میں یونیسکوایوارڈ برائے تحفظ ثقافتی ورثہ (برائے ایشیا و بحرالکاہل کے ممالک) سے نوازا گیا تھا۔ اس کے مقابلے میں آسٹریلیا، چین، بھارت، کوریا، ویتنام، نیوزی لینڈ اور تھائی لینڈ جیسے ممالک کا خوب صورت ثقافتی ورثہ تھا۔ یہ قدیم گھر کاشغر کے لیے میر آف ہُنزہ کے سفیر کے زیرِاستعمال تھا، جسے بعد میں آغا خان فاؤنڈیشن نے ازسرِنو بحال کیا ہے۔

٭کوئین وکٹوریہ یادگاری ٹاور؛

مقامی زبان بروشسکی میں ’’ملکہ مو شکاری‘‘ کے نام سے جانا جانے والی یہ یادگار کریم آباد میں ایک چٹان پر واقع ایک ٹاور ہے جسے ناظم خان نے بنوایا تھا۔ بلتت گاؤن سے چڑھائی چڑھ کر مختلف ندیوں، پولو گراؤنڈ، پرانے شکاری ٹاور اور ایک تنگ سے پہاڑی درے سے گزر کر تقریباً ایک گھنٹے میں اس تک پہنچا جا سکتا ہے۔

٭ایگلز نیسٹ؛

اسی نام کے ہوٹل کے ساتھ پہاڑی پر واقع یہ جگہ ہُنزہ کی مشہور ترین جگہ ہے جو سورج اُگنے اور ڈوبنے کے خوب صورت و سحرانگیز مناظر کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر مشہور ہے۔ ایک پہاڑی پر واقع ایگلز نیسٹ کے ایک جانب مشہور پہاڑ ’’لیڈی فنگر پیک‘‘ اور دوسری طرف قراقرم کے پہاڑ ہیں جنہیں سورج قطرہ قطرہ اپنی روشنی سے منور کرتا ہے تو زرد روشنی میں نہائے یہ برف پوش پہاڑ، کسی سُنہری تاج والی حسین پری کے مانند لگتے ہیں۔

٭کریم آباد؛

گنیش کے ساتھ کچھ شمال میں ہُنزہ کا صدر مقام ’’کریم آباد‘‘ واقع ہے جسے اگر ہُنزہ کی شان کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ کریم آباد جس کا پرانا نام ’’بلتت‘‘ تھا، قدیم تجارتی قافلوں کے پڑاؤ کا مقام تھا جو آہستہ آہستہ ایک بڑی تجارتی منڈی بن گیا۔ کریم آباد کو ’’دی گارڈین‘‘ اخبار نے پاکستان کے پانچ بہترین سیاحتی مقامات میں شامل کیا ہے۔ اس شہر کو پرنس کریم آغا خان کے نام پر رکھا گیا ہے، جب کہ پرانے لوگ اب بھی اسے بلتت کہہ کر بلاتے ہیں۔

خوب صورت پتھروں کی چوڑی گلیوں کے اس شہر میں کئی اسکول، کالج، لائبریریاں، گراؤنڈز اور اسپتال ہیں۔ یہاں کی خاص بات یہ ہے کہ اس شہر کی شرحِ خواندگی 95 فی صد کے قریب ہے جو پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔

کریم آباد کا مشہور بازار جو بلتت قلعے کے سامنے واقع ہے، ہر قسم کی دست کاریوں، نوادرات، زیورات، قیمتی پتھر، روایتی کھانوں، آرٹسٹوں کے بنائے لکڑی کے ماڈل، آلاتِ موسیقی، قالین، گرم مصالحوں، خشک میووں، پھلوں، شہد اور دیگر لوازمات سے بھرا پڑا ہے۔ یہاں سیب، خوبانی، اخروٹ، ملبیری، چیری اور صنوبر کی بہتات ہے۔ کیفے ڈی ہُنزہ اور بلتت کیفے یہاں کے مشہور ریستوران ہیں۔ بھاپ اْڑاتے ممتو اور شارپشورو سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ شہر کی اکانومی مکمل طور پر سیاحوں اور پھل سبزیوں پر ٹکی ہے۔

کریم آباد بازار سے بلتت فورٹ کی طرف جائیں تو گاؤں کے اندر سے ایک راستہ اوپر کی طرف جاتا ہے جو گاؤں ختم ہونے کے بعد ایک نالے کے ساتھ بتدریج چڑھائی کی طرف جانا شروع ہوتا ہے۔ کچھ دیر بعد سامنے پتھروں اور مٹی سے اٹھا بڑا سا گدلا گلیشیئر سامنے آجاتا ہے جو اُلتر گلیشیئر ہے۔ گلیشیئر کے بائیں کنارے پر چلتے ہوئے بلتت فورٹ سے تقریباً دو سے تین گھنٹے بعد اُلتر میڈوز کی چراگاہ کا وسیع میدان آتا ہے۔ اُلتر میڈوز کی بلندی تقریباً 2900 میٹر ہے۔ یہ کریم آباد اور ملحقہ آبادیوں کی مشترکہ چراگاہ ہے جہاں ان کے جانور چرتے ہیں۔ اُلتر میڈوز سے اُلتر پیک ون ٹو اور لیڈی فنگر کا بیس کیمپ بھی نظر آتا ہے۔

8-1562261206.jpg


٭ التِت قلعہ؛

ہنزہ کی شاہانہ وجاہت کا عکاس ’’التِت فورٹ‘‘، دریائے ہُنزہ کے کنارے بالائی کریم آباد میں واقع ہے۔ التِت قلعے کو ’’میر آف ہنزہ‘‘ نے ہمسایہ ریاست نگر کے ’’میر‘‘ پر اپنی طاقت اور عظمت کی دھاک بٹھانے کے لیے تعمیر کروایا تھا۔ اور تقریباً 11 ویں صدی سے یہ اسی طرح ’’قراقرم‘‘ کے پہاڑوں پہ شان و شوکت سے براجمان ہے۔

اس قلعے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اس نے نہ صرف کئی بیرونی حملوں کا مقابلہ کیا بلکہ یہ زلزلوں میں بھی اپنی جگہ سے ایک انچ نہ سرکا۔ التیت قلعہ اور خاص طور پر قلعے کا ”شکاری ٹاور” تقریبا 900 سال پرانی جگہیں ہیں، یوں یہ گلگت بلتستان میں سب سے قدیم یادگار ہے۔ پاکستان کے دوسرے قلعوں کی طرح التِت فورٹ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا لیکن حال ہی میں ’’آغا خان ٹرسٹ برائے تاریخ و ثقافت‘‘ نے اسے حکومت ناروے کی مدد سے بحال کیا ہے۔

500 کا ٹکٹ لے کر اندر جائیں تو سرسبز ’’شاہی باغ‘‘ آپ کا استقبال کرتا ہے جس میں نارنجی پکی ہوئی خوبانی سے جُھکے درخت اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔ اس باغ کے ساتھ ایک خوب صورت پگڈنڈی آپ کو التیت فورٹ تک لے جائے گی جس کا شکاری ٹاور دور سے ہی نظر آ جاتا ہے۔ یہ دریائے ہُنزہ سے 1000 فٹ کی بلندی پر ہے جو جنگی حالات میں تمام علاقے پر نظر رکھنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس زمانے میں وادیٔ ہُنزہ روس اور چین کی طرف سے حملوں کے خطرے میں گھری رہتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی بنی ایک جگہ سے قیدیوں اور باغیوں کو نیچے دریائے ہُنزہ میں سزا کے طور پر پھینکا جاتا تھا جہاں سے ان کی لاش بھی نہ ملتی تھی۔

التیت قلعے کی تعمیر کے قریباً 400 سال بعد ہُنزہ کے شاہی خاندان میں پھوٹ پڑ گئی اور پرنس شاہ عباس اور پرنس علی خان نے ایک دوسرے پر حملے کیے اور ہمارے گائیڈ کے مطابق پرنس عباس نے علی خان کو ایک ستون کے اندر زندہ چُنوا دیا جو آج بھی ٹاور کے اندر ہے۔ اس کے علاوہ یہاں مختلف کمروں میں شاہی خاندان کے قدیم برتن اور بکس رکھے گئے ہیں۔ لکڑی کے چھوٹے دروازوں، سیڑھیوں اور کھڑکیوں خوب صورت کشیدہ کاری کی گئی ہے جس کے ڈیزائن دیکھ کر میں مبہوت رہ گیا۔ پرانے زمانے کے نقش و نگار تو نئے زمانے کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔

قلعے کا مرکزی ہال بیک وقت عبادت، کھانا پکانے اور مختلف مجالس کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ یہاں ایک صدیوں پرانا کھانا پکانے کا برتن اور لکڑی کا پرانا بکس رکھا ہے جس پر’’سواستیکا‘‘ کے کئی نشان بنے ہیں۔ گائیڈ کے مطابق سواستیکا کا نشان آریائی زمانے میں چار بنیادی عناصر ہوا، آگ، پانی اور مٹی کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اسی سواستیکا کو ہٹلر نے اپنا نشان بنایا اور جرمنی کی فوج کو بھی پہنا دیا۔ یہ بکس آٹا رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد کچھ شاہی کمرے دکھائے گئے جہاں پرنس اور شاہی خاندان کے دیگر افراد رہتے تھے۔ ان کمروں کی کھڑکیوں سے نیلے رنگ کے دریائے ہُنزہ کا شان دار نظارہ کیا جا سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی ایک ناگن سی بل کھاتی کالی لکیر بھی ہے جو شاہراہِ قراقرم ہے۔ اس سے آگے شاہی مہمان خانوں کے سامنے ایک خوب صورت گیلری سے ہُنزہ گاؤں کا خوب صورت نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ساتھ بنے چھوٹے چھوٹے گھر، ان میں سے اُٹھتا دھواں اور پسِ منظر میں برف پوش پہاڑ، التیت قلعے کو ایسے ہی نہیں ہُنزہ کی شان کہتے۔ قلعے کے اندر شاہی مہمان خانوں کو ایک چھوٹے سے میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے جس میں شاہی خاندان اور ہُنزہ سے متعلق نادر تصاویر رکھی گئی ہیں۔ اوپر چھت پر شکاری ٹاور، لکڑی کی ایک کھڑکی اور ایک چھوٹا کمرہ بنا ہوا ہے جس کے چھوٹے سے دروازے پر لکڑی کا خوب صورت کام کیا گیا ہے۔ قلعے کے باہر سبز پانی کا خوب صورت تالاب، ہینڈی کرافٹ شاپس، کیفے اور خوب صورت گھر بنے ہیں جن کے سامنے بیٹھے ہُنزہ کے آرٹسٹ رباب پر قسم قسم کی دھنیں بجا کر سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔

جاپان نے یہاں پرانے گاؤں اور ارد گرد کی ترقی اور تزئین و آرائش میں اہم کردار ادا کیا ہے. التیت قلعہ 2007 سے عوام کے لیے کھلا ہے۔

٭بلتِت فورٹ؛

اب رُخ کرتے ہیں بلتِت فورٹ کا۔ یونیسکو کی عارضی ثقافتی ورثے کی لسٹ میں شامل بلتِت کا قلعہ، پریوں کی کہانیوں مں موجود کسی خوب صورت پری کا گھر لگتا ہے۔ پہاڑ کے اوپر واقع یہ قلعہ کوئی 650 سال پہلے تب بنایا گیا جب ہُنزہ کے شاہی خاندان میں پھوٹ پڑی اور پھر پایہ تخت التِیت سے بلتِت قلعے میں منتقل ہو گیا جسے وقت کے ساتھ ساتھ مرمت کیا گیا۔ 16 ویں صدی میں جب یہاں کے شہزادے نے بلتستان کی شہزادی سے شادی کی تو وہ بلتی ہنرمندوں اور کاری گروں کو اپنے ساتھ لائی تاکہ وہ اس قلعے کی تزئین و آرائش کر سکیں اور اس قلعے کی موجودہ شکل تب کے بلتی کاری گروں کی ہی عنایت شدہ ہے۔

1945 میں میرِہنزہ نے اس قلعے کو چھوڑ کر پہاڑ سے نیچے ایک اور قلعہ نما گھر بنایا اور وہاں منتقل ہوگئے جس کے بعد یہ قلعہ ایک ویران اور دہشت زدہ جگہ کا روپ دھار گیا۔ لوگوں نے یہاں کا رُخ کرنا چھوڑ دیا اور قلعے سے قیمتی سامان چوری ہونا شروع ہو گیا جو آج تک نہیں مل سکا۔ رفتہ رفتہ اِس قلعے کی حالت خراب ہونا شروع ہو گئی اور اس کے منہدم ہونے کے خدشات بڑھ گئے۔ ہماری بے پرواہی نے اسے یونیسکو کی ’’خطرے میں موجود عمارتوں‘‘ کی فہرست میں لا کھڑا کیا۔ پھر اس علاقے کی ثقافت کے لیے شہہ رگ کی سی حیثیت رکھنے والا آغا خان ٹرسٹ اور لندن کی ’’رائل جیوگرافیکل سوسائٹی‘‘ کے اشتراک سے اس کی مرمت کا کام شروع کیا گیا جو 1996 میں ختم ہوا اور اس قلعے کو ایک عجائب گھر کی شکل دے دی گئی جسے بلتت ٹرسٹ چلا رہا ہے۔

بلتت کا قلعہ بھی کچھ کچھ التیت قلعہ سے مماثلت رکھتا ہے۔ اس کے دروازے کھڑکیاں اچھوتے اور خوب صورت ڈیزائنوں سے مزین ہیں۔ سیڑھیوں سے اوپر جائیں تو ایک ہال ہے جس میں سیڑھیوں سمیت تین کمروں کے دروازے کھلتے ہیں۔ ایک کمرے میں برتن اور خوب صورت لال قالین رکھا گیا ہے جب کہ دوسرا کچن ہے جہاں ہر قسم کے برتن اور ایک انوکھی چیز رکھی ہے جو سمجھ نہیں آتی، غور کرنے پر پتا چلا کہ یہ ’’چوہے دان‘‘ ہے۔ پہاڑی بکروں کی کھال اور پرندوں کے پر بھی رکھے گئے ہیں۔ غرض یہ وادیٔ ہُنزہ کی ثقافت کا بھر پور عکاس ہے۔

9-1562261234.jpg


اوپر جائیں تو ایک شان دار منظر آپ کو ملتا ہے۔ لکڑی کے کام سے مُزین ایک جھروکے میں ریاست ہُنزہ کے امیران کا خوب صورت تخت بچھا ہے جہاں بیٹھ کر وہ اپنی رعایا سے خطاب کرتے تھے۔ اس کے ساتھ لکڑی کی دیوار پر مارخور کا ڈھانچا اور سینگ نمائش کے لیے لگائے گئے ہیں۔ اس قلعے کے لکڑی سے بنے دالانوں سے سورج غروب ہونے کا منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

اوپر کے تمام کمرے میوزیم کا حِصہ ہیں جہاں پہلے کمرے میں ہنزہ کے والیان کی تصاویر، پوشاکیں، ہُنزہ کا جھنڈا، ڈھالیں اور تلواریں رکھی گئی ہیں۔ اس سے آگے کا کمرہ خوب صورت کشمیری اسٹائل کی چھت سے مزین ہے اور وہاں میر محمد کلیم خان کے دور کا کشمیری قالین ، تانبے کے برتن اور ریاست ہْنزہ اور چین کے درمیان ہونے والے تجارتی معاہدات کی نقول رکھی گئی ہیں جو چینی اور شینا زبان میں قلم بند ہیں۔ اگلا کمرہ میرانِ ہنزہ کی خاندانی تصاویر، آرام کرسی، گھڑیال اور پرانے ٹیلی فون پر مشتمل چیزوں سے سجا ہے۔ اس سے آگے کچن ہے جہاں بڑے چھوٹے برتن اور ایک بچے کا خوب صورت پنگھوڑا رکھا ہے۔

سب سے آخری کمرے میں علاقے کی ثقافت کو نمایاں کیا گیا ہے۔ ایک طرف دیوار پر ڈھول، رُباب اور طمبق جیسے علاقائی سازوں سے سجا یہ کمرہ دوسری جانب لال، پیلے، نیلے، ہرے شیشوں کی کھڑکیوں سے مْزین ہے۔ یہاں 1920 کے دور کے پرانے چینی نوٹ بھی رکھے گئے ہیں، جب کہ ایک اور دیوار پر 1900 کے زمانے کا سنکیانگ (چین) کا قالین لٹک رہا ہے۔ یہاں سے باہر سیڑھیاں آپ کو نیچے اس جگہ لے جاتی ہیں جہاں ہُنزہ کی مشہور ’’زلزلہ‘‘ توپ رکھی گئی ہے۔ اس توپ کے لیے اہلِ ہُنزہ نے تانبے کے برتن اور کوئلہ مہیا کیا اور یہ 1891 میں انگریزوں کے خلاف استعمال کی گئی۔ انگریز فوج نے گلگت اور ہُنزہ کی ریاستوں کو فتح کرنے کے بعد یہ توپ گلگت ایجنسی کے انگریز پولیٹکل ایجنٹ کے دفتر کے باہر رکھ دی۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ وہیں رہی جب کہ جون 1999 میں اسے بلتت فورٹ ٹرسٹ کے حوالے کر دیا گیا۔ یہاں میرے دورے کے دوران بھی مرمتی کام جاری تھا اور اس کی آؤٹ لُک کو درست کیا جا رہا تھا۔ بلاشبہ بلتِت کا قلعہ پاکستان کے لیے ایک بیش قیمت اثاثے سے کم نہیں ہے۔ اس قلعے کے باہر کریم آباد بازار ہے جو ہر قسم کی دست کاریوں، نوادرات، زیورات، قیمتی پتھر، روایتی کھانوں، آرٹسٹوں کے بنائے لکڑی کے ماڈل، آلاتِ موسیقی، قالین، گرم مصالحوں، خشک میووں، شہد اور دیگر لوازمات سے بھرا پڑا ہے۔ کیفے ڈی ہُنزہ اور بلتت کیفے یہاں کے مشہور ریستوراں ہیں۔ بھاپ اْڑاتے ممتو اور شارپشورو سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔

٭ عطا آباد جھیل؛

کریم آباد سے آگے احمد آباد اور سلمان آباد کے بعد آتی ہے نیلے پانی کی وہ خوب صورت جھیل جو ویسے تو ایک قدرتی آفت کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی لیکن اب کسی نعمت سے کم نہیں۔ یہ وادی ہُنزہ کا بیش قیمت اثاثہ ’’عطا آباد جھیل‘‘ ہے۔

ہر پل مختلف رنگ بدلنے والی یہ جھیل پہاڑ کے ایک حصے کے سرکنے یعنی لینڈ سلائیڈ کے نتیجے میں 2010ء میں وجود میں آئی۔ یہ جھیل عطا آباد نامی گاؤں کے نزدیک ہے جو کریم آباد سے 22 کلومیٹر اوپر کی جانب واقع ہے۔

عجیب رنگ بدلتی ہے اس کی نگری بھی

ہر اک نہر کو دیکھا فرات ہونے تک

یہ واقعہ 4 جنوری 2010ء میں پیش آیا جب زمین سرکنے سے کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے اور شاہراہ قراقرم کا کچھ حصہ اس میں دب گیا اور دریائے ہنزہ کا بہاؤ 5 ماہ کے لیے رک گیا۔ جھیل کے بننے اور اس کی سطح بلند ہونے سے کم از کم 6000 افراد بے گھر ہوئے جب کہ 25000 مزید افراد متاثر ہوئے۔ اس کے علاوہ شاہرائے قراقرم کا 19 کلومیٹر طویل حصہ بھی اس جھیل میں ڈوب گیا۔ جون 2010ء کے پہلے ہفتے میں اس جھیل کی لمبائی 21 کلومیٹر جبکہ گہرائی 100 میٹر سے زیادہ ہو چکی تھی۔ اس وقت پانی زمین کے سرکنے سے بننے والے عارضی بند کے اوپر سے ہو کر بہنے لگا۔ تاہم اس وقت تک ششکٹ کا نچلا حصہ اور گلمت کے کچھ حصے زیرآب آ چکے تھے۔ گوجال کا سب ڈویژن سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں 170 سے زیادہ گھر اور 120 سے زیادہ دکانیں سیلاب کا شکار ہوئیں۔ شاہراہِ قراقرم کے بند ہونے سے خوراک اور دیگر ضروری سازوسامان کی قلت پیدا ہو گئی۔ 4 جون کو جھیل سے نکلنے والے پانی کی مقدار 3700 مکعب فٹ فی سیکنڈ ہو چکی تھی۔

شاہراہِ قراقرم کے 24 کلومیٹر ٹکڑے کے ڈوبنے کے بعد یہاں پانچ طویل سُرنگیں بنائی گئیں جن کی مجموعی لمبائی 7 کلومیٹر تک ہے اور قراقرم ہائی وے کو وہاں سے گزارا گیا۔ یہ منصوبہ تعمیراتی تاریخ میں ایک ماسٹر پیس کی سی حیثیت رکھتا ہے جسے پاکستانی و چینی انجنیئرز نے سرانجام دیا۔

(جاری ہے)
 

جاسم محمد

محفلین
1741058-shahraeqaraqaram-1562952217-539-640x480.jpg

ہَوا میں جھولتا حُسینی پُل، دنیا کا عجیب ترین لینڈاسکیپ پاسو کی تِکونی چوٹیاں، ذکراسکردو اور ہُنزہ کے مزے دار پکوانوں کا

(آخری قسط)

٭ گُلمِت؛
عطاآباد سے ذرا آگے جائیں تو گُلمِت کا بورڈ نظر آتا ہے۔ گلمت، جسے ’’گُلِ گلمت‘‘ بھی کہتے ہیں گوجال سب ڈویژن کا مرکزی شہر ہے۔ گلیشیئرز اور بلندوبالا پہاڑوں کے بیچ واقع یہ شہر ایک مشہور سیاحتی مقام ہے جہاں کئی ہوٹل، ریستوراں اور ایک چھوٹا سا میوزیم بھی بنا ہوا ہے۔ گلمت میں ایک پولوگراؤنڈ اور اس کے شمال میں میر آف ہُنزہ کا محل واقع ہے جہاں وہ گرمیاں گزارنے آتے تھے۔ یہاں کے قدیم عبادت خانوں کو اب لائبریری بنا دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں چھے سات جماعت خانے بھی ہیں۔

٭ حُسینی برِج:
گُلمت کے بعد ہی حُسینی کا علاقہ آتا ہے جہاں دنیا کے خطرناک ترین پُلوں میں سے ایک، بین الاقوامی شہرت کا حامل حُسینی برِج واقع ہے۔ کسی بھی سیاح کا ٹور حسینی برج اور پسو کونز کے ساتھ تصویر بنائے بغیر مکمل نہیں مانا جاتا۔ سو اگر آپ یہاں آ ہی گئے ہیں تو دل کڑا کر کے حُسینی تک ضرور جائیں۔ حسینی پُل تک جانے کے لیے آپ کو پیدل پانچ منٹ کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ پل پر چڑھنے کے لیے 60 روپے کا ٹکٹ خریدیں اور اپنی باری پر چڑھ جائیں اگر آپ اتنے جگرے والے ہیں تو۔ باری پر اس لیے کیوںکہ یہ پُل آٹھ نو سے زیادہ افراد کا وزن نہیں اٹھا سکتا۔

دریائے سِندھ پر ہَوا کے جھونکوں پر جھولتا یہ پُل بڑے بڑے رسوں اور لکڑی کے تختوں سے بنایا گیا ہے جن کا درمیانی فاصلہ اکثر جگہوں پر اتنا زیادہ ہے کہ دیکھنے والا گھبرا کر وہیں جم جاتا ہے۔ اکثر سیاح یہاں اپنی ہمت آزمانے آتے ہیں جب کہ بہت کم ہی اسے پار کرپاتے ہیں۔یوں تو قراقرم ہائی وے بننے کے بعد یہاں تک پہنچنا آسان ہو گیا ہے، لیکن گلگت بلتستان کے اندر اب بھی مختلف اندرونی علاقوں تک پہنچنے کے لیے ایسے پل استعمال کیے جاتے ہیں۔ اِس سے آپ وہاں کے باسیوں کی مشکلات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

٭ پاسو کونز اور گلیشیئر:
یوں تو حسینی سے ہی آپ کو پاسو کونز نظر آنے لگ جاتی ہیں لیکن جیسے جیسے آپ قریب جاتے ہیں یہ برف پوش، خوب صورت تکونی چوٹیاں اور زیادہ غضب ڈھانے لگتی ہیں۔ پُرانے زمانے کے اسپین میں پسو ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ ہمارا پسو وادی گوجال کا ایک مشہور سیاحتی مقام ہے جہاں پاکستان کا دوسرا طویل ترین گلیشیئر، ’’بٹورا گلیشیئر‘‘ واقع ہے۔ اس گلیشیئر کی لمبائی 56 کلومیٹر ہے اور سیاچن کے بعد اسے پاکستان کا سب سے بڑا گلیشیئر مانا جاتاہے۔ اس کے ساتھ ہی ’’پاسو پیک‘‘ بھی سر اْٹھائے کھڑی ہے۔ 6000 میٹر سے بھی زیادہ بُلند ’’پاسو کونز‘‘ جنہیں پاسو کیتھیڈرل بھی کہا جاتا ہے، اس علاقے کا سب سے زیادہ دل فریب اور فریفتہ کردینے والا مقام ہے۔ کسی اہرام کی طرز پر بنی یہ قدرتی چوٹیاں شام ڈھلنے کے وقت ایک سحرانگیز نظارہ پیش کرتی ہیں۔ پسو اپنے باغات، تکونی چوٹیوں جنہیں کونز کہا جاتا ہے، پھلوں اور قدرتی خوب صورتی کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ کہتے ہیں ایسا عجیب و غریب لینڈاسکیپ دنیا میں اور کہیں نہیں ہے۔

3-1562948047.jpg


پاکستان، چین، افغانستان کا وا خان کوریڈور اور چائنیز ترکستان
یہاں میں پسو کی ایک سوغات کا ذکر کرنا چاہوں گا جو بہت کم لوگوں کے علم میں ہے۔ یہ ہے ’’خوبانی کا کیک‘‘ جو پاسو میں موجود گلیشیئر بریز نامی کیفے کے مشہور شیف احمد علی کی سوغات ہے۔ یہ کیفے مرکزی شاہ راہ سے کافی اوپر بنا ہوا ہے، اسی لیے اکثر سیاحوں کی نظر سے اوجھل رہتا ہے۔ تقریباً 110 سیڑھیاں چڑھنے کی مشقت کے بعد جب میں یہاں پہنچا تو آرڈر پر تیار تازہ کیک میرے حوالے کیا گیا۔ اس کی بھی ایک منفرد تاریخ ہے۔

یہاں کے شیف اور مالک احمد علی خان صاحب کے مطابق وہ یہ ریستوراں 2003 سے چلا رہے ہیں اور یہاں کا مشہور خوبانی کیک اصل میں ان کی دادی کی ریسیپی ہے جو خاندان میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوکر ان تک پہنچی ہے۔ یہ ترکیب خفیہ رکھی گئی ہے اور کسی کو بھی ان کے کچن میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ کیفے کے اندر ان کی مرحومہ دادی کی ایک تصویر بھی رکھی ہے۔ ساتھ ساتھ ملک کے مشہور سیاست دانوں (جن میں بلاول بھٹو بھی شامل ہیں) کی تصاویر بھی ہیں جو یہاں کا دورہ کرچکے ہیں۔ اگر آپ پسو جائیں تو یہاں کا کیک کھانا مت بھولیے گا۔

٭ سوست:
یہاں سے خیبر اور دوسرے چھوٹے قصبوں سے ہوکر آپ سوست پہنچتے ہیں جو شمال کی طرف پاکستان کا آخری آباد شہر ہے، جس کے بعد پاکستان اور چین کا بارڈر ہے۔ اس شہر کو لوگ مذاقاً سُست بھی کہتے ہیں لیکن یہ جفاکش اور محنتی لوگوں کا شہر ہے جو میلوں دور سے سیاحوں کے لیے کھانا پینا اور دیگر ضروریاتِ زندگی کا سامان لاتے ہیں۔ درحقیقت یہی وہ محنتی لوگ ہیں جن کی وجہ سے شمالی علاقوں کی سیاحت زندہ ہے۔ شاہ راہ قراقرم کی تعمیر کے بعد سوست نے گلگت بلتستان کے علاقے میں ایک اہم تجارتی مرکز کی حیثیت حاصل کرلی ہے۔

سوست میں پاکستان کسٹمز کی دفتروں کے علاوہ ایک ڈرائی پورٹ بھی ہے جہاں پر چین سے آنے اور چین کو جانے والے سامان تجارت کو محفوظ رکھا جاتا ہے، اور بین الاقوامی تجارت کے اصولوں کے مطابق انتظامی کاروائیاں بھی کی جاتی ہیں۔ سوست میں گلگت بلتستان اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے تاجروں اور محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد بھی رہتی ہے، جس کی وجہ سے یہاں معاشی سرگرمیاں دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ ہیں۔ سوست میں مختلف ہوٹلز اور پاکستان ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کا ایک موٹیل بھی ہے جس کے اندر جاکر آپ کو کسی مغربی ملک کی رہائش گاہ کا احساس ہوتا ہے۔ یہاں نہ صرف آپ کو چین کے جھنڈے اور تصاویر نظر آئیں گی بلکہ کوریا، جاپان، اٹلی اور دیگر ملکوں کے سیاحوں کے لگائے گئے اسٹیکرز اور بیگ بھی ملیں گے۔ سوست شہر بالکل ویسا ہی ہے جیسا آج سے دس سال پہلے تھا۔ یہاں ترقی کی رفتار ذرا سُست ہے۔ سوست کے بازار میں آپ کو ہُنزہ کے قیمتی پتھر ملیں گے لیکن یہاں کی خاصیت کوک نامی پتھر سے بنے ماربل سے ملتے جلتے منفرد نوادرات اور برتن ہیں جو میں نے اپنے سفر میں اور کہیں نہیں دیکھے۔

٭ خُنجراب ٹاپ و پاک چین بارڈر:
سوست سے آگے قراقرم خُنجراب نیشنل پارک کے پہاڑی اور خشک لینڈاسکیپ سے گزرتی ہے۔ گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں واقع خُنجراب نیشنل پارک پاکستان کا 3 بڑا اور دنیا کے چند بلندترین پارکس میں سے ایک ہے۔ یہ نیشنل پارک گلگت سے 269 کلومیٹر شمال مشرق میں دو لاکھ چھبیس ہزار نو سو تیرہ 226913 ہیکٹرز پر پھیلا ہوا ہے جس میں وادی خنجراب اور شِمشال شامل ہیں۔ اس علاقے کو اپریل 1979ء میں اس وقت کے وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے ’’مارکوپولو شیپ‘‘ کی حفاظت کے لیے نیشنل پارک کا درجہ دیا تھا۔ یہ پورا نیشنل پارک چوںکہ سطح سمندر سے بہت زیادہ بلند (3200 میٹر سے لے کر 600 میٹر تک) ہے، اس لیے سال کے بیشتر مہینوں میں پورا پارک برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ پورا علاقہ وسیع وعریض گلیشیئرز اور برفانی جھیلیوں سے اٹا پڑا ہے۔ خنجراب نیشنل پارک کے علاقے میں سبزہ بہت کم ہے۔

اس علاقے کو نیشنل پارک قرار دینے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ یہاں پائے جانے والے جنگلی جانوروں، بالخصوص بھیڑوں کی ایک نایاب نسل ’’مارکو پولو شیپ‘‘ کی نہ صرف حفاظت کی جائے بلکہ ان کی افزائش نسل کے لیے موزوں ماحول فراہم کیا جائے، کیوںکہ یہ جانور پورے پاکستان میں اور کہیں نہیں پایا جاتا۔ مارکو پولو شیپ کے علاوہ یہاں برفانی تیندوے، لومڑی، سُنہری عقاب، چکور، بھورا بگلا، اُلو، بھیڑیے، برفانی ریچھ، ہمالیائی بکرے، بھورے ریچھ اور سنہرے چوہوں کی بھی متعدد اقسام موجود ہیں۔ شاہ راہِ قراقرم کی وجہ سے عام لوگوں اور سیاحوں کی یہاں تک رسائی آسان ہوگئی ہے۔ شکار پر

پابندی کی وجہ سے آپ کو بہت سے جانور قراقرم ہائی وے پر چلتے پھرتے بھی نظر آئیں گے۔ خنجراب نیشنل پارک سے ہوتی ہوئی یہ شاہ راہ وہاں جا پہنچتی ہے جہاں کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا، خُنجراب ٹاپ۔

درۂ خُنجراب (بلندی 4693 میٹر یا 15397 فٹ) سلسلۂ کوہ قراقرم میں ایک بلند پہاڑی درہ ہے جو پاکستان کے گلگت بلتستان، جموں و کشمیر اور چین کے سنکیانگ کے علاقوں کے لیے ایک فوجی مصلحتی مقام ہے۔ اس کا نام وخی زبان سے ہے جس کا مطلب ’’پانی کا چشمہ یا گرتا پانی‘‘ ہے۔ درّہ خنجراب کو دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔پاکستان اور چین نے جب یہ منصوبہ بنایا تھا تو دنیا ان پر ہنستی تھی کہ جہاں انسان نہیں پہنچ سکتا وہاں ایک پُختہ سڑک کیوںکر جائے گی؟ لیکنوہی ہوتا ہے جو منظورِخُدا ہوتا ہے۔

یہ شاہ راہ بنی اور دنیا نے دیکھا کہ کیسے دو ممالک کے انجنیئرز اور مزدوروں نے جان پر کھیل کر اپنی دوستی کی نشانی کو دنیا کے اونچے بارڈر تک پہنچایا۔ تبھی اکثر لوگ اسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہتے ہیں۔

4-1562948051.jpg


اس جگہ کے پاس کئی ریکارڈز ہیں جیسے یہ دنیا کی سب سے اونچی اور خوب صورت سرحدی کراسنگ ہے۔ یہاں واقع اے-ٹی-ایم مشین دنیا کی سب سے اونچی اے ٹی ایم ہے۔ یہ جگہ قراقرم ہائی وے کا سب سے اونچا پوائنٹ ہے اور یہاں سے گزرنے والی روڈ دنیا کی سب سے اونچی پکی سڑک ہے۔ دو طرفہ اچھے تعلقات کی بدولت یہاں فوجی پہرہ بھی کم ہے۔ پاکستان چین اکنامک کوریڈور کے تحت یہاں سے ریلوے لائن گزارنے کا بھی منصوبہ بنایا گیا ہے جس پر فی الحال کوئی پروگریس نظر نہیں آتی۔

اب چلتے ہیں ہُنزہ و نگر میں بسنے والے لوگوں کی طرف اور ان کے زرخیز ذہنوں کو کھنگالتے ہیں۔

57 سالہ دیدارعلی کا تعلق وادیٔ ہُنزہ کے شہر علی آباد سے ہے اور وہ ایک ریٹائرڈ پرنسپل ہیں۔ بیگ گیسٹ ہاؤس نامی سرائے چلانے والے دیدار علی نے آج سے کئی سال پہلے پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی جب گلگت بلتستان میں تعلیم عام نہ تھی۔ انہوں نے گلگت بلتستان کی بدلتی ہوئی معاشی اور معاشرتی زندگی کو غور سے دیکھا ہے۔ وہ گلگت بلتستان کے بدلنے کے چشم دید گواہ ہیں۔ اُن کے ساتھ ایک بھرپور نشست میں کچھ اہم سوالات کا خُلاصہ کیا گیا، جس کا حال پیشِ خدمت ہے۔

٭ گلگت بلتستان میں تعلیم کی صورت حال کیا ہے؟
دیدار علی کہتے ہیں کہ 1964 سے پہلے گلگت بلتستان میں تعلیم تقریباً صفر تھی۔ اسکول و کالج ناپید تھے۔ جو لوگ تعلیم کے متوالے تھے وہ پشاور یا پنجاب جاتے تھے اور اپنی تعلیم مکمل کرکے یہاں آکر پڑھاتے تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے یہاں تعلیم کی بنیاد رکھی۔ پھر ہمارے اِمام سلطان کی ڈائمنڈ جوبلی آئی اور اس خوشی میں انہوں نے یہاں کے مرکزی شہر کریم آباد میں ایک اسکول بنوایا اور تب سے یہاں تعلیم عام ہونا شروع ہوئی۔ غیرملکی سیاحوں نے بھی یہاں تعلیم کا شعور اجاگر کرنے میں بھرپور ساتھ دیا اور اسکول بنوائے۔ پھر پرنس کریم آغا خان نے کافی اسکول اور کالج بنوائے۔ پرویز مشرف کے زمانے میں گلگت بلتستان میں ’’قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی‘‘ کے نام سے پہلی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی جو ہُنزہ، دیامیر اور غزر میں بھی اپنے سب کیمپس کے ذریعے فروغِ تعلیم کے لیے کوشاں ہے۔ پھر صدر ممنون حسین کے دور میں 2017 میں اسکردو میں یونیورسٹی آف بلتستان کی بنیاد رکھی گئی اور آج گلگت بلتستان میں تعلیم کی صورت حال ماضی کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔

٭آج کے گلگت بلتستان اور بیس پچیس سال پہلے کے جی-بی کو آپ کیسا دیکھتے ہیں؟ کیا بنیادی فرق ہے ان میں؟
پہلے ان علاقوں کا رہن سہن بہت عام سا تھا۔ کچے گھر تھے، لوگوں کا آپس میں ملنا ملانا زیادہ ہوتا تھا، محبت زیادہ تھی۔ ایک دوسرے کی عزت بھی زیادہ کرتے تھے۔ لوگوں میں محنت و جفاکشی کی عادت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ پتھر توڑ کر لانا اور دوردراز علاقوں سے پانی بھرنا عام سی بات تھی۔ تب سیاحت اتنی زیادہ نہیں تھی۔ لوگ کھیتی باڑی کرکے اور قیمتی پتھر نکال کر روزی کماتے تھے۔ بڑے ٹرک اور گاڑیاں اِکّادُکا ہی نظر آتی تھیں۔ بنیادی ڈھانچے کی کمی تھی اور شہر بہت چھوٹے تھے۔ اس زمانے میں یہاں انگریز/گورے بہت آتے تھے جب کہ پاکستانیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی جب کہ آج اس کا اُلٹ حساب ہے۔

آج کا گلگت بلتستان جِدت کی طرف گام زن ہے۔ سیاحوں کا خوب رش ہوتا ہے جس کی بدولت روزگار کے مواقع بڑھے ہیں۔ نت نئے ہوٹلز اور ریستوراں کْھل گئے ہیں۔ شہر، بازار اور سڑکیں پھیل گئی ہیں۔ لوگوں کا رجحان کاروبار اور نوکریوں کی طرف ہو گیا ہے۔ نوجوانوں میں شعور بیدار ہوچکا ہے۔ آج کا نوجوان اپنے بنیادی حقوق سے مکمل آشنا ہے۔ البتہ لوگوں میں محبت اور ایک دوسرے کا احساس کچھ کم ہوا ہے۔

٭ ہِز ہائی نیس پرنس کریم آغا خان کا گلگت، ہُنزہ اور نگر کی ترقی میں کتنا ہاتھ ہے؟ ان کے بغیر آپ گلگت بلتستان کو کیسا دیکھتے ہیں؟
میں سمجھتا ہوں کہ یہ علاقے اور ان کی ترقی ہِزہائی نیس کی مرہونِ منت ہے۔ آغا خان ٹرسٹ نے یہاں نہ صرف 150 سے اوپر اسکول کھولے ہیں بلکہ اسپتال، ڈسپنسریاں، ووکیشنل ادارے، کھیل کے میدان بھی انہی کی بدولت ہیں۔ اسی وجہ سے ہُنزہ میں شرح تعلیم بہت زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ اب ہماری بچیاں بھی موسیقی سیکھ رہی ہیں۔ یہاں کا جو ثقافتی ورثہ ہے اسے بھی انہوں نے بحال کروایا ہے ورنہ تو یہاں کے قلعے کھنڈر بن چکے ہوتے۔ آغا خان نے یہاں کے نوجوانوں کو نوکریاں دی ہیں اور انہیں مختلف شعبوں کھپایا ہے۔ ان کے بغیر یہاں کی ترقی تقریباً ناممکن تھی۔

5-1562948055.jpg


٭ یہاں کے لوگ سیاسی طور پر کس کے زیادہ قریب ہیں؟
یہاں کے لوگ اسی جماعت کو پسند کرتے ہیں اور ووٹ بھی دیتے ہیں جو مرکز میں اقتدار میں ہو کیوںکہ وہ جانتے ہیں کہ اس خِطے کو وہی حکومت کچھ دے سکتی ہے جو اقتدار میں ہے۔ لیکن میں آپ کو بتاؤں اندرونی طور پر یہاں کے لوگ بھٹو کو بہت پسند کرتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس علاقے کے لیے بہت کچھ کیا خصوصاً ہمیں گندم پر سبسڈی دی اور گلگت بلتستان کی اسمبلی بھی پیپلزپارٹی کے دور میں بنی اس لیے ہمیں بھٹو سے محبت ہے۔

اس کے بعد ان کے بیٹے اسلم پرویز نے گفتگو میں حِصہ لیا اور ہُنزہ نگر کے مشہور کھابوں کے بارے میں بتایا۔ اسلم پرویز نہ صرف اپنے والد کا ہاتھ بٹاتے ہیں بلکہ گلگت بلتستان پولیس میں نوکری بھی کر رہے ہیں۔ چلیے جانتے ہیں گلگت و ہنزہ کے مشہور کھابوں کے بارے میں۔
1-نمکین چائے : اْن کے مطابق ہم ہُنزہ والے میٹھی چائے نہیں پیتے۔ جی ہاں! یہاں کی چائے نمکین ہوتی ہے اور وہ اسے ہی پسند کرتے ہیں۔ یہ رواج پورے گلگت بلتستان میں ہے۔
2- گُو-لی/ بارُوئے گیالِن: گینانی کے تہوار پر بنائی جانے والی یہ مشہور ڈش جو سے بنائی جاتی ہے۔ جو کو بھون کر اس میں پانی ڈالا جاتا ہے۔ پھر آٹے کی طرح ہوجانے پر گوندھ لیتے ہیں اور اس کی روٹی بنائی جاتی ہے جس پر گیری کا تیل لگایا جاتا ہے۔ اسے عموماً ناشتے میں نمکین چائے کے ساتھ کھایا جاتا ہے لیکن آپ اسے چائے کے بغیر بھی کھا سکتے ہیں۔ اصل میں یہ ایک تہوار کی ڈش ہے۔
3- ممتُو: ممتو، پاکستان کے انتہائی شمال میں اسکردو اور ہنزہ -نگر کی ایک مزے دار ڈش ہے اسے آپ گلگت بلتستان کا سموسہ بھی کہہ سکتے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ یہ گھی یا تیل میں نہیں تلا جاتا بلکہ اسٹیم یعنی بھاپ پر پکایا جاتا ہے۔ ’’شمال کا ڈمپلنگ‘‘ کہلائی جانے والی یہ ڈش چین سے تعلق رکھتی ہے جسے بعد میں یہاں کے لوگوں نے اپنایا اور آج یہ گلگت بلتستان کا مشہور ’’کھابہ‘‘ ہے۔
بھاپ پر پکائی جانے والی اس ڈش میں گائے یا بھیڑ کا قیمہ، پیاز، لہسن اور ہری مرچ سے بنایا گیا مسالا، آٹے اور میدے کے ورق میں بھرا جاتا ہے اور تیار ہوجانے کے بعد اسے مختلف چٹنیوں اور سِرکے کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ انتہائی زیادہ ڈیمانڈ ہونے کے بعد ممتو ، لاہور اور پنڈی میں بھی ملتا ہے۔
4- چاپشورو:چاپشورو یا شارپشورو کو ہُنزہ کا پیزا کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ پیزا نما یہ ڈش روٹی سے ملتی جلتی ہے جس کے اندر لذیز مسالا بھرا جاتا ہے۔
سب سے پہلے گندم کے آٹے سے روٹی بنائی جاتی ہے جس پر مسالا رکھا جاتا ہے۔ یہ فِلنگ گائے یا یاک کے گوشت میں مختلف اجزاء جیسے ٹماٹر، پیاز، ہری مرچ اور مسالے شامل کر کہ بنائی جاتی ہے۔ اس کے بعد اس پر ایک اور روٹی رکھ کر اس کے کناروں کو خوب صورت طریقے سے موڑ دیا جاتا ہے۔ ایک بڑے توے پر رکھ کر دس سے پندرہ منٹ تک پکایا جاتا ہے اور سُنہرا ہونے پر اتار لیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اسے پیزا کی طرح ٹکڑے کر کے کھاتے ہیں جب کہ کچھ بیچ میں سے روٹی کی پرت اُٹھا کر مزے سے کھاتے ہیں۔
5- دیرم فِٹی: یہ گندم سے بنائی جاتی ہے۔ اس کے لیے گندم کو پہلے کچھ عرصہ نمی والی جگہ پر رکھنا پڑتا ہے جس سے اس میں مِٹھاس آجاتی ہے۔ بعد میں اس کے آٹے سے روٹی بناکر پراٹھے کی طرح خوبانی کے تیل میں پکایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ بادام کا روغن بھی لگاتے ہیں۔ پھر اسی پراٹھے کو ٹکڑے کرکے یا پیس کر دیسی گھی میں پکاکر پیش کیا جاتا ہے۔ نشاستے سے بھرپور یہ غذا ہنزہ میں طاقت ور تصور کی جاتی ہے جسے زیادہ تر کسان کھیتوں میں کام کرنے کے دوران ساتھ لے جاتے ہیں۔
6- مُولیدا: یہ دہی سے بنایا جاتا ہے۔ دہی میں گندم کی روٹی کے باریک ٹکڑے ڈال کر پیاز، نمک، دھنیا ڈالا جاتا ہے۔ مِکس کرنے کے بعد اسے گاڑھا کیا جاتا ہے اور پھر گیری کا تیل ڈال کر بنایا جاتا ہے۔
7- یاک کا گوشت: پاکستان کے دوسرے علاقوں کے برخلاف یہاں بھینسیں وغیرہ بہت کم ہیں۔ یاک یہاں کا عام اور مشہور جانور ہے۔ یہاں یاک کا دودھ اور گوشت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یاک کا دودھ بہت گاڑھا ہوتا ہے جس سے چائے نہیں بنائی جاسکتی، جب کہ اس کا گوشت مارخور کی طرح تاثیر میں گرم اور گہری لال رنگت کا ہوتا ہے۔
8- بٹرنگ داؤدو: ہنزہ کا روایتی سوپ جو سردیوں میں خوبانی سے بنایا جاتا ہے۔ یہ سردی کے موسمی امراض اور قبض میں بھی مفید تصور کیا جاتا ہے۔ یہ خشک خوبانیوں میں چینی، پانی اور لیموں کا رس ملا کر تیار کیا جاتا ہے۔ یہ سوپ ہنزہ کے ہر گھر میں بنایا جاتا ہے۔
اب چلتے ہیں گلگت بلتستان کی کچھ خاص سوغاتوں کی طرف جو پاکستان کے اس حِصے کا خاصہ ہیں۔

٭ ہُنزہ و نگر کے مشہور پھل
ہُنزہ اور نگر کے پھلوں میں سب سے مشہور چیری ہے جو یہاں وافر مقدار میں اگائی جاتی ہے۔ ہُنزہ کی کالے رنگ کی رس بھری چیری ملک اور بیرونِ ملک تک بھیجی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کی خوبانی بھی اپنی مثال آپ ہے۔ انتہائی میٹھی اور خوش ذائقہ۔ یہاں سیب، اخروٹ، ملبیری اور شہتوت بھی وافر مِلتے ہیں۔
اشکین: پیلے رنگ کی لکڑی نُما یہ جڑی بوٹی بہت اوپر پہاڑوں سے حاصل کی جاتی ہے۔ مقامیوں کے مطابق یہ جوڑوں اور ہڈیوں کے درد میں انتہائی مفید ہے۔ گرم تاثیر کی وجہ سے اسے تھوڑی مقدار میں دودھ میں مِلا کر پیا جاتا ہے۔ اشکین کا ایک ٹکڑاسو روپے میں بہ آسانی مل جاتا ہے۔
جنگلی حیات: پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی جنگلی حیات باقی پاکستان سے بہت مختلف ہے۔ پہاڑی بکرے، یاک، مارکوپولو شیپ، مارخور یہاں کے مشہور جانور ہیں۔ ان کے علاوہ اُڑیال، جنگلی خرگوش، پہاڑی نیولا، مھورا ریچھ، ترکستانی سیاہ گوش، لومڑی، تبتی بھیڑیا اور برفانی چیتا بھی پائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ شہروں سے دور پہاڑوں اور جنگلوں میں قیام کرتے ہیں۔ شہری علاقوں میں صرف پہاڑی بکرے، بھینسیں، یاک اور خرگوش نظر آتے ہیں۔

٭ موسیقی:
یہاں کی تاریخ کی طرح یہاں کی ثقافت بھی انتہائی زرخیز ہے جو دیکھنے والے کو مبہوت کردیتی ہے۔ اس علاقے کے مسحور کُن مناظر اور بدلتی رُتوں نے یہاں کے لوگوں کے ’’ذوقِ جمال‘‘ کو جِلا بخشی ہے اور فطرت سے ان کی محبت یہاں کی شاعری، موسیقی، رسم ورواج، ادب اور رقص میں بھی جھلکتی ہے۔ گلگت بلتستان کی موسیقی اور روایتی دھنیں بھی ملک کے دیگر علاقوں کی موسیقی اور دھنوں سے بالکل مختلف ہیں۔

گلگت، ہُنزہ و نگر کے مشہور سازوں میں رُباب، دُمبق، ڈامل، ڈڈنگ، سُرنائی اور دُف شامل ہیں۔

رُباب یہاں کا سب سے مشہورساز ہے جو مذہبی موسیقی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ صوبہ بلوچستان میں بھی بجایا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کی اِس ساز کا آبائی وطن ’’وسط ایشیا ‘‘ ہے۔ رُباب کو شہتوت کی جڑ اور تنے سے بنایا جاتا ہے۔ پھر چمڑا لگایا جاتا ہے اور اس میں 6 سے 12 تاریں لگائی جاتی ہیں۔ اِس کا اُوپری حصہ لمبا اور نیچے کا حصہ طنبورے کی طرح ہوتا ہے جس پر بہت سے تار ہوتے ہیں، اس کی دھن کانوں میں رس گھول کر سننے والوں کو مدہوش کردیتی ہے۔ ہُنزہ کے رباب چھوٹے جب کہ دیگر شمالی علاقوں کے بڑے ہوتے ہیں۔ رباب کے ساتھ مقامی طور پر بنی ہوئی دف کا استعمال ہوتا ہے۔ شاہراہِ قراقرم کے ذریعے اب سنکیانگ اور کاشغر سے بھی دف منگوائے جاتے ہیں۔

سُرنائی بھی اس علاقے کا ایک اہم ساز ہے جو شہنائی کی ہی ایک قسم ہے۔ خوبانی کی لکڑی سے بنے اس ساز میں آٹھ سوراخ ہوتے ہیں جن میں سات سوراخ اوپر اور ایک نیچے کی طرف ہوتا ہے۔
اسے گلگت اور نگر سمیت بلتستان اور چِترال میں بھی بجایا جاتا ہے۔

٭ لِباس:
مرد حضرات کا مخصوص لباس شلوار قمیص اور ہنزہ کیپ ہے جسے اکثر لوگ چترالی ٹوپی بھی کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اوورکوٹ جیسا سفید اونی چوغہ بھی بہت مقبول ہے جس پر مختلف رنگوں سے خوب صورت بیل بوٹے بنائے جاتے ہیں۔
خواتین کا لباس نہایت دل چسپ ہے۔ یہاں مقامی خواتین کُھلے گھیردار اور کام والے فراک اور اوپر خوب صورت کام والی رنگ برنگی ٹوپیاں پہنتی ہیں۔ بوڑھی خواتین ان ٹوپیوں پر صاف ستھرا سفید دوپٹہ لپیٹتی ہیں جو ان خواتین کو نہایت خوب صورت اور نفیس لُک دیتا ہے۔ نوجوان لڑکیاں اوپر رنگ برنگے دوپٹے پہنتی ہیں۔ زیورات میں زیادہ تر چاندی کے زیور استعمال کیے جاتے ہیں جن میں بڑے چھوٹے مختلف جڑاؤ پتھر اور جواہر لگائے جاتے ہیں۔ یاقوت، لاجورد اور پکھراج کے زیورات زیادہ استعمال کیے جاتے ہیں۔

یہ تو تھی شاہ راہِ قراقرم کی کہانی۔ وہ سڑک جو پنجاب کے میدانوں سے شروع ہو کر پختونخواہ کے کوہستانوں اور گلگت بلتستان کے بلند وبالا پہاڑوں کا سینہ چیرتی ہوئی درۂ خنجراب سے ہوکر عوامی جمہوریہ چین تک جاتی ہے۔ یہ صرف ایک روڈ نہیں ہے، یہ گلگت بلتستان کی شہہ رگ ہے، شمال میں پاکستان کی لائف لائن ہے جس سے ہزاروں گھرانوں کا روزگار وابستہ ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ شاہ راہِ قراقرم بننے کے بعد سیاحت، ترقی، معاشی بڑھوتری، جِدت، ثقافت کے نئے رنگ، امن اور تمدن نے گلگت بلتستان کا رخ کیا ہے۔
 
Top