محمد تابش صدیقی
منتظم
حکومت بنانا اکثریتی منتخب جماعت کا جمہوری حق ہے ۔ اس مقصد کیلئے چھوٹی جماعتوں کیلئے افہام و تفہیم لازمی ہے ۔ اگر کل کے شدید مخالف اور مختلف خیال جماعتیں اگر کسی مستحکم حکومت اور محفوظ پاکستان کیلئے کسی ایک چھتری کے تحت جمع ہو رہے ہیں تو اسکو "وسیع القلبی" سے بھی ماخوز کیا جا سکتا ہے ۔
مگر شاید یہ کڑوا گھونٹ وقت کی ضرورت ہے
سیاست میں کوئی بھی چیز حرف آخر نہیں ۔ یہ Compromises دوطرفہ ہیں ، یکطرفہ نہیں ۔ مگر یہ طے ہے کہ پاکستان میں ایک منتخب حکومت کی فوری ضرورت ہے ۔ تاکہ سمت متعین کی جا سکے ۔ جس کو جلد از جلد اقتدار میں آنا چاہئیے ۔
بیانات اور موقف ۔ کسی بھی زمانے کے سیاسی حالات میں یہ دونوں تبدیل ہو سکتے ہیں ۔ اسلئیے Tall Claims سے اجتناب برتنا چاہئیے ۔ یہ تبدیلی کسی مثبت سمت میں کوئ قدم بھی ہو سکتا ہے
حکومت فوری طور پہ بننی چاہئیے۔ چاہے برسر اقتدار فرد مجھے پسند ہو نہ ناپسند یہ اکثریتی جماعت کا جمہوری حق ہے جو اسکو بلاشبہ لازمی ملنا چاہئیے
اور یہ بھی یاد رہے کہ حکومتی افراد، اسکی پالیسیوں ۔ اسکی طرز حکومت اور اسکے سیاسی ۔ معاشی اور بین الاقوامی اقدامات پہ تنقید میرا حق ہے جو مجھ سے کوئی چھین نہیں سکتا اور ہاں ساتھ میں کوئی ملک دشمن ہونے کا سرٹیفیکیٹ بانٹنے کی کوشش بھی نہ کرے کہ کسی نے دل چیر کر نہیں دیکھا۔
اسی طرح جمہوریت میں اپوزیشن ہمیشہ "متحد" ہوتی ہے۔ یہ نظریاتی طور پہ ہمیشہ "اضداد" کا مجموعہ ہی ہوتی ہے ۔ یہ حکومت مخالفت کے "سنگل پوائنٹ ایجنڈے" پہ ہر قسم کی جمہوریت میں جمع ہوتی ہے ۔ اسکا کام حکومتی اقدامات اور فیصلوں کی کڑی جانچ اور احتساب ہے ۔
اس اپوزیشن کے اتحاد کو مخالفت برائے مخالفت سمجھنا خود ایک ناسمجھی ہے ۔ جمہوریت میں کسی بھی پوزیشن پہ حکومتی امیدوار کے مخالف امیدوار لانا ۔ اپوزیشن کا حق ہے ۔ تحریک عدم اعتماد لانا ۔ واک آوٹ کرنا، بحث کرنا ۔ ریکارڈ مانگنا ۔ یہ سب جمہوری عمل کا حصہ ہے اور یہی جمہوریت کا حسن ہے اسکو مخالفت پہ معمول کرنا درست نہیں بلکہ حماقت ہے
مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ناسمجھ اور نوخیز لکھاریوں اور صرف ایک کلک کے ذریعے اچھا برا شئیر کرنے والوں نے فضا مکدر کردی ہے جو مناسب نہیں ۔ ستم بالائے ستم سیٹھوں کے میڈیا ہاؤسسز ہیں۔ جنہوں نے اینکرز اور تجزیہ کاروں کے طور پہ سابق بیوروکریٹز، جرنیلوں اور شعوری بونوں کی کھیپ کی کھیپ جمع کر کے ٹڑانسمیشن کا پیٹ غلاظت سے بھر رہے ہیں۔
سیاست کے مضمون میں وہ بالکل کورے ہیں ۔ حمایت اور مخالفت میں انتہاؤں پہ پہنچے ہوئے ہیں ۔ایک دوسرے کو یوتھیا، منافق اور پٹواری کہہ کر اپنے خیال میں بڑا اچھا کام کیا ہے ۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسطرح کہہ کر یا لکھ کر دوریوں میں اضافہ کیا ہے ۔
سب محب وطن ہیں ۔ سب پاکستانی ہیں ۔ سب مسلمان ہیں۔
اختلاف رائے جمہوری عمل کا حصہ ہے اس میں عیب نہیں ۔ مگر تمسخر، عیوب کی تلاش اور دوسرے کو نیچا دکھانا اور تپانے والا سلسلہ کوئی مثبت عمل نہیں۔
یہ رک نہیں سکتا مگر سوشل میڈیا کے کھلاڑیوں سے درخواست ہے کہ تاریخ کا اور سیاسی جدوجہدوں کا مطالعہ ضرور کیجیے اس سے آپ کو ذہنی کشادگی اور پختگی ضرور ملے گی ۔
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
مگر شاید یہ کڑوا گھونٹ وقت کی ضرورت ہے
سیاست میں کوئی بھی چیز حرف آخر نہیں ۔ یہ Compromises دوطرفہ ہیں ، یکطرفہ نہیں ۔ مگر یہ طے ہے کہ پاکستان میں ایک منتخب حکومت کی فوری ضرورت ہے ۔ تاکہ سمت متعین کی جا سکے ۔ جس کو جلد از جلد اقتدار میں آنا چاہئیے ۔
بیانات اور موقف ۔ کسی بھی زمانے کے سیاسی حالات میں یہ دونوں تبدیل ہو سکتے ہیں ۔ اسلئیے Tall Claims سے اجتناب برتنا چاہئیے ۔ یہ تبدیلی کسی مثبت سمت میں کوئ قدم بھی ہو سکتا ہے
حکومت فوری طور پہ بننی چاہئیے۔ چاہے برسر اقتدار فرد مجھے پسند ہو نہ ناپسند یہ اکثریتی جماعت کا جمہوری حق ہے جو اسکو بلاشبہ لازمی ملنا چاہئیے
اور یہ بھی یاد رہے کہ حکومتی افراد، اسکی پالیسیوں ۔ اسکی طرز حکومت اور اسکے سیاسی ۔ معاشی اور بین الاقوامی اقدامات پہ تنقید میرا حق ہے جو مجھ سے کوئی چھین نہیں سکتا اور ہاں ساتھ میں کوئی ملک دشمن ہونے کا سرٹیفیکیٹ بانٹنے کی کوشش بھی نہ کرے کہ کسی نے دل چیر کر نہیں دیکھا۔
اسی طرح جمہوریت میں اپوزیشن ہمیشہ "متحد" ہوتی ہے۔ یہ نظریاتی طور پہ ہمیشہ "اضداد" کا مجموعہ ہی ہوتی ہے ۔ یہ حکومت مخالفت کے "سنگل پوائنٹ ایجنڈے" پہ ہر قسم کی جمہوریت میں جمع ہوتی ہے ۔ اسکا کام حکومتی اقدامات اور فیصلوں کی کڑی جانچ اور احتساب ہے ۔
اس اپوزیشن کے اتحاد کو مخالفت برائے مخالفت سمجھنا خود ایک ناسمجھی ہے ۔ جمہوریت میں کسی بھی پوزیشن پہ حکومتی امیدوار کے مخالف امیدوار لانا ۔ اپوزیشن کا حق ہے ۔ تحریک عدم اعتماد لانا ۔ واک آوٹ کرنا، بحث کرنا ۔ ریکارڈ مانگنا ۔ یہ سب جمہوری عمل کا حصہ ہے اور یہی جمہوریت کا حسن ہے اسکو مخالفت پہ معمول کرنا درست نہیں بلکہ حماقت ہے
مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ناسمجھ اور نوخیز لکھاریوں اور صرف ایک کلک کے ذریعے اچھا برا شئیر کرنے والوں نے فضا مکدر کردی ہے جو مناسب نہیں ۔ ستم بالائے ستم سیٹھوں کے میڈیا ہاؤسسز ہیں۔ جنہوں نے اینکرز اور تجزیہ کاروں کے طور پہ سابق بیوروکریٹز، جرنیلوں اور شعوری بونوں کی کھیپ کی کھیپ جمع کر کے ٹڑانسمیشن کا پیٹ غلاظت سے بھر رہے ہیں۔
سیاست کے مضمون میں وہ بالکل کورے ہیں ۔ حمایت اور مخالفت میں انتہاؤں پہ پہنچے ہوئے ہیں ۔ایک دوسرے کو یوتھیا، منافق اور پٹواری کہہ کر اپنے خیال میں بڑا اچھا کام کیا ہے ۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسطرح کہہ کر یا لکھ کر دوریوں میں اضافہ کیا ہے ۔
سب محب وطن ہیں ۔ سب پاکستانی ہیں ۔ سب مسلمان ہیں۔
اختلاف رائے جمہوری عمل کا حصہ ہے اس میں عیب نہیں ۔ مگر تمسخر، عیوب کی تلاش اور دوسرے کو نیچا دکھانا اور تپانے والا سلسلہ کوئی مثبت عمل نہیں۔
یہ رک نہیں سکتا مگر سوشل میڈیا کے کھلاڑیوں سے درخواست ہے کہ تاریخ کا اور سیاسی جدوجہدوں کا مطالعہ ضرور کیجیے اس سے آپ کو ذہنی کشادگی اور پختگی ضرور ملے گی ۔
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات