نمرہ
محفلین
شاید کہ زندگی کو گزارا بھی کچھ نہیں
حاصل تو جانے دیجے, خسارا بھی کچھ نہیں
شاید مجھے ازل سے وفا سے گریز تھا
شاید قصور اس میں تمھارا بھی کچھ نہیں
ہم بے نیاز بن کے جو بیٹھے ہیں بزم میں
ان کی طرف سے اب کے اشارا بھی کچھ نہیں
اپنی یہ عمر یونہی اکارت ہوئی تمام
بگڑے نہیں تو خود کو سنوارا بھی کچھ نہیں
عادت سی ہو گئی ہے کچھ ایسی بھنور کی اب
کشتی کا ذکر کیا ہے, کنارا بھی کچھ نہیں
روز وصال کا ہو گزر زندگی میں کیا
ہجراں کی رات کا وہ ستارا بھی کچھ نہیں
نازک مزاج ہم ہیں خدا جانے کس کے بل
دیکھو جو غور سے تو سہارا بھی کچھ نہیں
ہم خود بھی اپنی طبع سے بیزار کیوں نہ ہوں
کچھ ناپسند کب ہے, گوارا بھی کچھ نہیں
اٹھے گا ہم سے عشق کا رطل گراں کہاں
ہم کو تو اپنے آپ سے پیارا بھی کچھ نہیں
حاصل تو جانے دیجے, خسارا بھی کچھ نہیں
شاید مجھے ازل سے وفا سے گریز تھا
شاید قصور اس میں تمھارا بھی کچھ نہیں
ہم بے نیاز بن کے جو بیٹھے ہیں بزم میں
ان کی طرف سے اب کے اشارا بھی کچھ نہیں
اپنی یہ عمر یونہی اکارت ہوئی تمام
بگڑے نہیں تو خود کو سنوارا بھی کچھ نہیں
عادت سی ہو گئی ہے کچھ ایسی بھنور کی اب
کشتی کا ذکر کیا ہے, کنارا بھی کچھ نہیں
روز وصال کا ہو گزر زندگی میں کیا
ہجراں کی رات کا وہ ستارا بھی کچھ نہیں
نازک مزاج ہم ہیں خدا جانے کس کے بل
دیکھو جو غور سے تو سہارا بھی کچھ نہیں
ہم خود بھی اپنی طبع سے بیزار کیوں نہ ہوں
کچھ ناپسند کب ہے, گوارا بھی کچھ نہیں
اٹھے گا ہم سے عشق کا رطل گراں کہاں
ہم کو تو اپنے آپ سے پیارا بھی کچھ نہیں