شبِ غم مختصر کرے کوئی
میری اسکو خبر کرے کوئی
چراغ کی مانند جلا عمر بھر
میری طرح بسر کرے کوئی
مجھ پہ انگلی اٹھانے سے پہلے
خود کو معتبر کرے کوئی
بستیاں تو سب اجاڑتے ہیں
کھنڈر لیکن گھر کرے کوئی
سنگ باری کے اس کھیل میں
سامنے پہلے سر کرے کوئی
زہر دے کے مسکرانا بھی تو تھا
کاہے اب ظفر ظفر کرے کوئی