عرفان سعید
محفلین
شبِ قدر
شبِ قدر ایک ایسی عظیم اور مقدس رات ہے ، جس کے دوران وقوع پذیر ہونے والا واقعہ ایسا عظیم الشان واقعہ ہے کہ جس کی طرح کا کوئی واقعہ قدر و قیمت، عظمت و اہمیت، وقعت و گراں قدری، آفاق و انفس کے ابدی حقائق کی طرف رہنمائی اور حیاتِ انسانی پر انمٹ نقوش و اثرات کے لحاظ سے پوری کائنات نے مشاہدہ نہ کیا تھا ۔ ایسا واقعہ جس کی حقیقت و ماہیت تک رسائی کی کاوشِ شکستہ میں انسان کا توسنِ ادراک مزید جست لگانے سے انکار کر دیتا ہے، ابلقِ دانش ہانپنے لگتا ہے اور طائرِ تخیل پرواز سے عاجز آ جاتا ہے۔ایسا واقعہ جس کا پوری کائنات نے خشوع و خضوع، عاجزی و سر افگندگی، انکساری و فروتنی، دعا و ابتہال اور غایت درجہ فرحت و انبساط کے ساتھ مشاہدہ اور استقبال کیا۔
یہ اس حقیر، محدود، اور فانی انسان کی ازلی و ابدی اصلِ مطلق سے ربط و تعلق کی رات تھی۔ وہ وجودِ مطلق جس سے کائنات کا سر چشمہ پھوٹا، جس کے اذن سے زندگی اپنی تمام تر جولانیوں کے ساتھ ظہور پذیر ہوئی، جس کی صدائے کن فیکون نے ارض و سما کو ایک میزان کا پابندکیا۔ اس خالقِ کونین سے ربط و تعلق کے نتیجے میں ، یہ خاک کی اس حقیر سی چٹکی کی اس وسیع و عریض کائنات اور اس کے اندر کارفرما تکوینی قوانین و حقائق اور ان قوتوں اور طاقتوں –جن کا ذخیرہ اس کائنات میں ہے– سے ارتباط و اتصال کی رات تھی۔یہ عرش کے ملاء اعلی کی زمین کے باشندوں سے ملاقات کی رات تھی۔یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ اطہر پر نزولِ قران کی رات تھی۔ یہ اس نغمۂ لاہوتی کی انسانیت کے لیے شبِ سماع تھی کہ جس کی صدا سن کر انسان اپنی چھوٹی سی ذات سے رہائی پا کرعظیم الوسعت کائنات کی پہنائیوں ، اپنی ناتواں طاقت سے آگے بڑھ کر کائنات کی نامعلوم عظیم طاقتوں اور اپنی قلیل سی عمر کی حدود سے متجاوز ہو کر ابد الآبادکی مدت سے – جسے خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا – مربوط و متعلق ہو جاتا ہے۔
(عرفان)
یہ اس حقیر، محدود، اور فانی انسان کی ازلی و ابدی اصلِ مطلق سے ربط و تعلق کی رات تھی۔ وہ وجودِ مطلق جس سے کائنات کا سر چشمہ پھوٹا، جس کے اذن سے زندگی اپنی تمام تر جولانیوں کے ساتھ ظہور پذیر ہوئی، جس کی صدائے کن فیکون نے ارض و سما کو ایک میزان کا پابندکیا۔ اس خالقِ کونین سے ربط و تعلق کے نتیجے میں ، یہ خاک کی اس حقیر سی چٹکی کی اس وسیع و عریض کائنات اور اس کے اندر کارفرما تکوینی قوانین و حقائق اور ان قوتوں اور طاقتوں –جن کا ذخیرہ اس کائنات میں ہے– سے ارتباط و اتصال کی رات تھی۔یہ عرش کے ملاء اعلی کی زمین کے باشندوں سے ملاقات کی رات تھی۔یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ اطہر پر نزولِ قران کی رات تھی۔ یہ اس نغمۂ لاہوتی کی انسانیت کے لیے شبِ سماع تھی کہ جس کی صدا سن کر انسان اپنی چھوٹی سی ذات سے رہائی پا کرعظیم الوسعت کائنات کی پہنائیوں ، اپنی ناتواں طاقت سے آگے بڑھ کر کائنات کی نامعلوم عظیم طاقتوں اور اپنی قلیل سی عمر کی حدود سے متجاوز ہو کر ابد الآبادکی مدت سے – جسے خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا – مربوط و متعلق ہو جاتا ہے۔
(عرفان)