میر شبِ ہجر میں کم تظلّم کیا ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
شبِ ہجر میں کم تظلّم کیا
کہ ہمسائگاں پر ترحّم کیا

کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسّم کیا

زمانے نے مجھ جرعہ کش کو ندان
کیا خاک و خشتِ سرِ خم کیا

جگر ہی میں اک قطرہ خوں ہے سرشک
پلک تک گیا تو تلاطم کیا

کسو وقت پاتے نہیں گھر اسے
بہت میؔر نے آپ کو گم کیا
(میر تقی میر)​
 
ویسے تو میؔر کا تمام کلام رنج و غم اور حزن و ملال پر مبنی ہے مگر اِس غزل کے مقطع میں یوں لگا حضرت علامہ سیماؔب اکبرآبادی بازی لے گئے۔۔۔۔​
سیماؔب کو شگفتہ نہ دیکھا تمام عمر
کم بخت جب ملا ہمیں غم آشنا ملا​
 
آخری تدوین:
Top