شب خون۔

عمراعظم

محفلین
شب خون
اورپھر یوں ُہوا کہ دن گزرتے گئے​
یاد کی شہ رگوں کا کنوارہ لہو​
مقتلِ وقت کے فرش پر سو گیا​
یاد کی شکل پر جُھرّیاں آ گئیں​
یاد کی آنکھ کا نور کم ہو گیا​
یاد کی پشت خم ہو گئی ہاتھ میں​
اک عصائے فراموش گاری لیئے​
یاد لمحوں کے سیلاب میں کھو گئی​
یاد آہستہ آہستہ کم ہو گئی​
اور پھر یوں ُہوا کہ دن گزرتے گئے​
اُس نے سوچا کہ رُسوائی کیوں مول لیں​
کیوں نہ سونپی ہوئی دولتیں چھین لیں​
دوریاں بخش دیں قربتیں چھین لیں​
میں نے پھر دل سے در کے سب راستے​
وا کیئے ساری پونجی کو یکجا کیا​
کیسی تہذیب کیسا کھنڈر بن گئی​
ہائے کس سلطنت کو زوال آگیا​
چار سو غم کے شب خوں کی فوج تھی​
چار سو نارسائی کے لشکر ملے​
اک ارم دُور تک زیرِ تعمیر تھا​
دور تک خشک گہرے سمندر ملے​
چند صبحیں ملیں ایک سورج ملا​
چند شاموں کی آنکھوں میں سرخی ملی​
چند راتوں کی کچھ چاندنی سی ملی​
نیم قوسیں ملیں قرصِ مہتاب کی​
میری بیدار آنکھوں میں گُھلنے لگیں​
کانپتی دھندلی پرچھائیاں خواب کی​
ناز کے قصر پر کوئی آہٹ ملی​
راز کے سرخ ریشمی پردے ہلے​
درد کے قیمتی پتھروں کے تلے​
اشک کے موتیوں کے خزانے ملے​
پھر سے جینے کی جیسے للک جاگ اُٹھی​
میری خوابیدہ تقدیر تک جاگ اُٹھی​
ہوش آیا تو اپنے لبوں پہ مجھے​
ایک ہاری ہوئی مسکراہٹ ملی​
-------------------​
دل نے پھر اپنا شیرازہ برہم کیا​
غم نے روکا مگرجاں نے ماتم کیا​
میں نے کیا جانے کیا کیا اُسے تج دیا​
وہ کھلونے ابھی تک جو ٹوٹے نہ تھے​
اُن سوالوں کو بھی میں نے لوٹا دیا​
جو میرے عشق نے اُس سے پوچھے نہ تھے​
میں نےوہ شب و روز بھی اُسے دے دئیے​
جو میرے تھے مگر صرف میرے نہ تھے​
میں نے وہ کشتیاں بھی اُسے بخش دیں​
بادباں جن کے اب تک لپیٹے نہ تھے​
سارےپتوار قرباں کیئے جن کے تن​
دھوپ میں ریگِ ساحل سوکھے نہ تھے​
میں نے وہ رہگزر بھی اُسے سونپ دی​
جس پہ اُس کے نشانِ کفِ پا نہ تھے​
میں نے ایسے بھی سنّاٹے واپس کیئے​
ہم جہاں ساتھ رہتے تو تنہا نہ تھے​
میں نے وہ ساری سرگوشیاں پھیر دیں​
جن کے الفاظ میں آج تک جان تھی​
اک کھنک اُس کے لہجے کی محفوظ تھی​
جو میری روح و دل کی نگہبان تھی​
میں نے اُن موتیوں کو بھی بکھرا دیا​
عشقِ تنہا کو کچھ اور تنہا کیا​
-----------------​
اور پھر یوں ُہوا کے دن گزرتے گئے​
میں نے دیکھا کہ ہر جادہء زندگی​
ایک زنبیل میں میری دولت لئے​
اجنبی تھا کوئی سر کو او نچا کئے​
جا رہا تھا سوئے منزلِ دلد ہی​
ایک سایہ بھی تھا پیچھے پیچھے کہیں​
کون ہو گا بھلا وہ، نہیں وہ نہیں​
----------------------​
نوٹ : یہ نظم میں نے 1969 میں کسی رسالے سے نوٹ کی تھی۔شاعر کا نام نہیں جانتا ۔​
 

عمراعظم

محفلین
یہ تو میری خوش قسمتی ہے کہ بہت سے لوگ مجھے جوان ہی تصور کرتے ہیں۔اُن میں انیس الرحمان بھی شامل ہیں جو مجھے لڑکا لڑکا سا سمجھتے ہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہہہہ
بلا شبہ اک پر تاثر نظم
قاری کو اپنے ساتھ بہاتی ہوئی
بہت شکریہ محترم عمر اعظم بھائی شراکت پر
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یاد کی پشت خم ہو گئی ہاتھ میں​
اک عصائے فراموش گاری لیئے​
یاد لمحوں کے سیلاب میں کھو گئی​
یاد آہستہ آہستہ کم ہو گئی​
دور تک خشک گہرے سمندر ملے​
چند صبحیں ملیں ایک سورج ملا​
چند شاموں کی آنکھوں میں سرخی ملی​
چند راتوں کی کچھ چاندنی سی ملی​
ہوش آیا تو اپنے لبوں پہ مجھے​
ایک ہاری ہوئی مسکراہٹ ملی​
-------------------​
اُن سوالوں کو بھی میں نے لوٹا دیا​
جو میرے عشق نے اُس سے پوچھے نہ تھے​
میں نے وہ ساری سرگوشیاں پھیر دیں​
جن کے الفاظ میں آج تک جان تھی​
اک کھنک اُس کے لہجے کی محفوظ تھی​
جو میری روح و دل کی نگہبان تھی​
میں نے اُن موتیوں کو بھی بکھرا دیا​
عشقِ تنہا کو کچھ اور تنہا کیا​
-----------------​
اجنبی تھا کوئی سر کو او نچا کئے​
جا رہا تھا سوئے منزلِ دلد ہی​
ایک سایہ بھی تھا پیچھے پیچھے کہیں​
کون ہو گا بھلا وہ، نہیں وہ نہیں​
----------------------​

واہ سبحان اللہ
کیا زبردست شراکت ہے۔۔۔ لطف آگیا۔۔ اجازت ہو تو اپنے بلاگ پر بھی محفوظ کر لوں اسے؟
 

الف عین

لائبریرین
اچھی نظم ہے، انداز تو اختر الایمان لا لگتا ہے۔
بلاگ پر دو نیرنگ خیال تو یہ مصرع دیکھ لینا، ’کے‘ زائد ہے۔
اور پھر یوں ہوا کے دن گزرتے گئے
اس کی جگہ کوما کا محل ہے۔ یہ ہَوا نہیں، ہُوا ہے​
 
Top