شب ھجراں میں ستارہ سر مژگاں دیکھا۔ اصلاح کا خواست اگر ھوں

احمد وصال

محفلین
شبِ ہجراں میں ستارہ سر_مژگاں دیکھا
صبح آنے کو ھے، ستاره ذو فشاں دیکھا

ایک دن دیر سے میں لوٹ کے آیا گھر تو
صرف "اماں " کو بھرے گھر پریشاں دیکھا

چاکِ دامن میرے سینے کے زخم جیسا ھے
جس نے بھی دیکھا ،تو انگشت بدنداں دیکھا

وجہ معلوم نہیں ، بحرِ تحیر میں ھوں
آج اس زودِ پشیماں کو پشیماں دیکھا

چشم ناز کے دیکھے کا اثر کیا ، کیا ھے
وجہء درد بھی یہ، درد کا درماں دیکھا

انسیت اُنس سے ماخوذ ھے با معنیِ وفا
پھر بھی انسان کو انسان سے نالاں دیکھا

میری ھر غلطی کا ملزم کوئی شیطان تو نہیں
میں نے خود نفس کو چھپا، اک بڑا شیطاں دیکھا

رازِ دل کس کو بتائیں ، کوئی ملتا ہی نہیں
راز اپنا افشاء ، اپنوں میں ہی یہاں دیکھا
 
آخری تدوین:
ستارہ اور افشاء اور باقی اں کے ساتھ قافیہ لگ نہیں رہے۔ باقی تو یہ محترم اساتذہ ہی بتائیں گے۔
میری ھر غلطی کا ملزم کوئی شیطان تو نہیں
میں نے خود نفس میں چھپا اک بڑا شیطاں دیکھا
شیطاں ملزم بھی نہیں ہے اور پھر چھپے شیطان کا اقرار بھی۔
بلکہ ایسے تو کچھ بات بن سکتی۔۔۔۔۔
نفس میں چھپا خود کو شیطاں دیکھا۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
َقوافی کی بات درست کی گئی ہے۔ ہندی غزل ہوتی تو ہندی میں قبول کر لیا جاتا ہے، لیکن اردو میں نہیں۔
اس کے علاوہ
زخمِ سینہ ، چاکِ دامن سبهی اک جیسے ہیں
جس نے بھی دیکھا ،تو انگشت بدنداں دیکھا
پہلا مصرع بحر سے خارج ہے۔ مفہوم بھی واضح نہیں۔

وجہ معلوم نہیں ، بحرِ تخیر میں ھوں
بحر تحیر یا تخیر؟

چشم ناز کے دیکھے کا اثر کیا ، کیا ھے
وجہء درد بھی یہ، درد کا درماں دیکھا
÷÷دونوں مصرع وزن سے تھوڑا خارج ہیں۔چشمہء ناز اور وجہ ء درد پڑھیں تو درست ہوتا ہے۔ وجہِ درس درست لفظ ہے۔ بر وزن فعلن۔ یہاں ’فاعلا‘ باندھا گیا ہے۔

انسیت اُنس سے ماخوذ ھے بہ معنیِ وفا
پھر بھی انسان کو انسان سے نالاں دیکھا
۔۔ بہ معنی؟ یہ محض بَ تقطیع ہونی چاہئے، ’با‘ کی طرح بر وزن فعل نہیں۔

میری ھر غلطی کا ملزم کوئی شیطان تو نہیں
میں نے خود نفس میں چھپا اک بڑا شیطاں دیکھا
۔۔دوسرا مصرع خارج از بحر ہے

رازِ دل کس کو بتائیں ، کوئی ملتا ہی نہیں
راز اپنا یہاں اپنوں سے ہی افشاء دیکھا
۔۔بحر درست، قافیہ غلط۔
 

احمد وصال

محفلین
م
َقوافی کی بات درست کی گئی ہے۔ ہندی غزل ہوتی تو ہندی میں قبول کر لیا جاتا ہے، لیکن اردو میں نہیں۔
اس کے علاوہ
زخمِ سینہ ، چاکِ دامن سبهی اک جیسے ہیں
جس نے بھی دیکھا ،تو انگشت بدنداں دیکھا
پہلا مصرع بحر سے خارج ہے۔ مفہوم بھی واضح نہیں۔

وجہ معلوم نہیں ، بحرِ تخیر میں ھوں
بحر تحیر یا تخیر؟

چشم ناز کے دیکھے کا اثر کیا ، کیا ھے
وجہء درد بھی یہ، درد کا درماں دیکھا
÷÷دونوں مصرع وزن سے تھوڑا خارج ہیں۔چشمہء ناز اور وجہ ء درد پڑھیں تو درست ہوتا ہے۔ وجہِ درس درست لفظ ہے۔ بر وزن فعلن۔ یہاں ’فاعلا‘ باندھا گیا ہے۔

انسیت اُنس سے ماخوذ ھے بہ معنیِ وفا
پھر بھی انسان کو انسان سے نالاں دیکھا
۔۔ بہ معنی؟ یہ محض بَ تقطیع ہونی چاہئے، ’با‘ کی طرح بر وزن فعل نہیں۔

میری ھر غلطی کا ملزم کوئی شیطان تو نہیں
میں نے خود نفس میں چھپا اک بڑا شیطاں دیکھا
۔۔دوسرا مصرع خارج از بحر ہے

رازِ دل کس کو بتائیں ، کوئی ملتا ہی نہیں
راز اپنا یہاں اپنوں سے ہی افشاء دیکھا
۔۔بحر درست، قافیہ غلط۔
محترم الف عین آپ کے ھدایات کے مطابق اس طرح کیا ھے۔
شبِ ہجراں میں ستارہ سر_مژگاں دیکھا
صبح آنے کو ھے، ستاره ذو فشاں دیکھا

ایک دن دیر سے میں لوٹ کے آیا گھر تو
صرف "اماں " کو بھرے گھر پریشاں دیکھا

چاکِ دامن میرے سینے کے زخم جیسا ھے
جس نے بھی دیکھا ،تو انگشت بدنداں دیکھا

وجہ معلوم نہیں ، بحرِ تحیر میں ھوں
آج اس زودِ پشیماں کو پشیماں دیکھا

چشم ناز کے دیکھے کا اثر کیا ، کیا ھے
وجہء درد بھی یہ، درد کا درماں دیکھا

انسیت اُنس سے ماخوذ ھے با معنیِ وفا
پھر بھی انسان کو انسان سے نالاں دیکھا

میری ھر غلطی کا ملزم کوئی شیطان تو نہیں
میں نے خود نفس کو چھپا، اک بڑا شیطاں دیکھا

رازِ دل کس کو بتائیں ، کوئی ملتا ہی نہیں
راز اپنا افشاء ، اپنوں میں ہی یہاں دیکھا
 
Top