نوید ناظم
محفلین
زندگی میں آسانیاں بڑھتی جا رہی ہیں اورجینا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ رابطے کے ذرائع بڑھ گئے ہیں مگر دوریاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ ہمارے پاس تیز رفتار کاریں تو ہیں مگر ہمارے پاس وقت نہیں ہے کہ ہم کسی کے پاس جا سکیں۔ انسان نے زندگی کی حفاظت کے لیے جو ایجادات کیں، وہی زندگی کے لیے خطرہ بن چکی ہیں۔ جب سے لوگ احساس سے محروم ہوئے ہیں، ان میں احساسِ محرومی بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ پڑوسی، پڑوسی سے بے خبر ہے، ایک دفتر میں کام کرنے والے ایک دوسرے سے بیزار ہیں۔ لوگ سڑکوں پر ایسے دوڑ رہے ہیں جیسے انھیں چابی بھر کر چھوڑ دیا گیا ہو۔ سلام میں پہل سنت ہے، مگر جب ہم کسی کے پاس سے گزرتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے تیز آندھی کا جھونکا اندھا دھند گزر جائے۔۔۔۔ ہم نے کسی پر سلامتی کیا بھیجنی، ہمارے پاس آج سلامتی بھیجنے کے لیے وقت ہے نہ شعور۔ ہم نے تو پیسہ کماناہے اور وہ بھی اتنا کہ ہم خود نہیں جانتے کتنا۔ ہم نے سفر کرنا ہے مگر بے سمت، ہم نے دوڑنا ہے اور صرف اس لیے کہ سب دوڑ رہے ہیں۔ زندگی ہاتھ سے نکل رہی ہے اور ہمارے قدم ہیں کہ کہیں ٹھہر نہیں رہے۔ آنکھ بند ہونے کو ہے اور ہماری آنکھیں ہیں کہ کھُل نہیں رہیں۔ کیا زندگی یوں ہی گزر جائے گی، چیزیں قمتی ہوتی جائیں گی اور 'انسان' سستا۔۔۔۔ کیا محض پیٹ پھرنے کی فکر ہی میں وقت ہمیں نگل جائے گا۔۔۔۔ کیا اب ہم اک دوسرے کے قریب نہیں آ سکیں گے۔۔ کیا اب درد ہمیشہ کے لیے اپنا اپنا ہو گا۔۔۔۔ لوگ ساتھ رہیں گے مگر اجنبی بن کر۔۔۔۔ مگر ایسے زندگی نہیں گزرتی۔ جس معاشرے میں احساس ختم ہو جائے، وہ معاشرہ ختم ہو جاتا ہے۔۔۔۔ اور معاشرہ ہمارا نام ہے، ہم ختم ہو رہے ہیں۔ یہی وقت ہے کہ ہم خود پر رحم کریں اور خود کو بچا لیں۔۔۔ مگر نہیں، ہم نے تو صرف اپنے جوتے مسجد کے اندر چوری ہونے سے بچانے ہیں۔۔۔ مسجد کے صحن کو جوتوں کی ناپاکی سے کیا بچانا- ہم نے حفاظت کرنا بھی سیکھی توکس چیز کی۔۔۔۔ جوتوں کی! کسی کا دل توڑنے میں ہمیں وقت نہیں لگتا، کچھ سوچیں تو بد گمان ہونے میں وقت نہیں لگتا، کچھ بولیں تو بد زبان ہونے میں وقت نہیں لگتا۔ آخران سب باتوں کی حفاظت کس نے کرنی ہے۔۔۔۔؟ ہم اپنے لیے کام کرتے ہیں مگر ہم اپنے آپ پر کام نہیں کرتے، ہم زندہ تو ہیں مگر شتر بے مہار۔۔۔۔۔ ہمیں ٹھہرنا ہو گا اس سے پہلے کہ ہم کھو جائیں اور خود سے اتنے دور نکل جائیں کہ ڈھونڈنے سے بھی نہ مل سکیں-