شجر ممنوعہ کا شاعر

یوسف-2

محفلین
sarshaar+siddiqui-1.jpg


sarshaar+siddiqui-2.jpg


sarshaar+siddiqui-3.jpg


sarshaar+siddiqui-4.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
شجر ممنوعہ کا شاعر
گزشتہ دنوں معروف شاعر اور کالم نویس سرشار صدیقی کے ساتھ ایک شام منائی گئی۔ معروف شاعر حمایت علی شاعر نے اپنا پانچ برس پرانا مضمون "شجر ممنوعہ کا شاعر" پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے اپنے مضمون میں سرشار صدیقی کو "وصل کا شاعر" قرار دیا۔ ایک ہی مضمون میں ایک ہی شاعر کو شجر ممنوعہ کا شاعر اور وصل کا شاعر قرار دینا یقیناً حمایت علی شاعر کا خاصہ ہے۔ اب یہ پڑھنے اور سننے والوں کا فرض ہے کہ وہ "شجر ممنوعہ" اور "وصل" کے مابین رابطہ کی کڑیاں تلاش کریں۔​
پروگرام کے میزبان شبنم رومانی نے اپنے ابتدائی کلمات کی طرح اختتامی جملوں میں بھی سرشار صدیقی کی خوب خوب مدح سرائی کی۔ عذر یہ پیش کیا کہ اس قسم کی محفلیں کوئی تنقیدی نشستیں نہیں ہوتیں کہ صاحب شام پر تنقیدی گفتگو کی جائے۔ مگر امراؤ طارق نے اس ہدایت کی پرواہ کئے بٖغیر اپنا مضمون "کامریڈ سرشار صدیقی" پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے کہا کہ سرشار شاعری میں ہر طرح کے احتساب کے باوجود لکھتے رہے۔ نوجوانی میں شاعری تخلص کی آڑ میں کرتے رہے اور سگریٹ چھپ کر پیتے رہے۔ انہوں نے بتلایا کہ سرشار کلکتہ کی سڑکوں پر کمیونسٹ پارٹی کا اخبار بیچتے رہے ہیں اور اس قدر اشتراکی ہونے کے باوجود پور پور مسلمان ہیں کیونکہ انہوں نے مذہب کی کبھی نفی نہیں کی۔ اس کے باوجود انہیں ساری عمر ترقی پسندوں اور اسلام کے ٹھیکیداروں سے بیک وقت لڑائی لڑنی پڑی۔​
پروفیسر انجم اعظمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ جب میں نے گریجویشن کی ایک طالبہ سے "وصال" کے بارے میں گفتگو کی تو وہ ناراض ہو گئی۔ کہنے لگی کہ آپ بہت خراب ہیں۔ میں نے اسے بتایا کہ وصال پر تو میر و غالب جیسے بڑے شاعروں نے بھی لکھا ہے۔ سرشار نے بھی وصال پر نظمیں لکھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں لکھنا بھی عبادت ہے اور سرشار چالیس برس سے عبادت کر رہے ہیں۔ انجم اعظمی نے کہا کہ سرشار برا بھی ہے لیکن اس کے باوجود اچھا ہے اس لئے کہ وہ آدمی ہے فرشتہ نہیں۔ اس موقع پر قمر ہاشمی نے "سرشار صدیقی کے نام" ایک نظم سنائی جبکہ برگ یوسفی نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا :​
خود اپنی زندگی کے چراغوں کی روشنی​
خود اپنی شاعری کا سویرا کہیں اسے​
جلسہ سے مہمان خصوصی ابو الخیر کشفی اور صدر نشین ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے بھی خطاب کیا۔ سرشار صدیقی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا (جس کی تصدیق یا تردید کرنے سے فرمان فتح پوری نے انکار کر دیا) کہ آج سے برسوں قبل ڈاکٹر فرمان فتح پوری ہی کی صدارت میں میرے مجموعہ کلام کی تقریب رونمائی ہوئی تھی جو اپنی "نوعیت" کی پہلی تقریب تھی۔ پھر اس کے بعد کتابوں کی تقریب رونمائی کا سلسلہ چل پڑا۔ ویسے ہمارے خیال میں زیر تذکرہ تقریب میں بھی ایک نئی روایت کا آغاز ہوا ہے اور وہ یہ کہ پروگرام کے اختتام پر تمام شرکاء سے درخواست کی گئی کہ وہ جانے سے قبل سرشار صدیقی کے مجموعہ کلام پر دستخط کرتے جائیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ بعد میں کوئی شریک محفل اپنی اس "شرکت" کا انکار نہ کر سکے۔ ویسے ہم نے دیکھا کہ بہت سے شرکاء اس ہدایت پر عمل کئے بغیر ہی رخصت ہو گئے۔ معلوم نہیں کہ انہوں نے ایسا کچھ سوچ سمجھ کر کیا یا یوں ہی ان سے بھول ہو گئی۔​
 

شمشاد

لائبریرین
ویسے دوران پروگرام شرکاء نے اپنے ادبی ذوق کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ جہاں طویل اور "بور" مقالوں کو "ہوٹ" کیا وہیں مقررین کے اچھے فقروں کی خوب خوب داد بھی دی۔ ایک افسانہ نویس جب تقریر کرنے آئے تو ایک طرف سے آواز آئی۔ افسانہ نویس کبھی سچ نہیں بولتا۔ ایک طویل اور بور کر دینے والی تقریر کے بعد جب ایک دوسرے مہمان مقرر کو دعوت دی گئی تو ایک منچلے نے پیچھے سے آواز لگائی : ایک مرگ ناگہانی اور ہے۔ آخر میں سرشار صدیقی نے ایک نظم اور ایک غزل کے چند اشعار سنائے۔ ایک شعر پیش خدمت ہے ۔​
خدا پر آدمی پر یا صنم پر​
کسی پر تو ترا ایمان ہوتا​
اپنے مقالے میں حمایت علی شاعر نے سرشار صدیقی کو وصل کا شاعر قرار دیا ہے تو یقیناً انہوں نے سرشار کی شاعری کا مطالعہ کر کے ہی ایسا کہا ہو گا۔ لیکن چونکہ ادب کے قارئین کی کثیر تعداد آج بھی سرشار کی شاعری کے تفصیلی مطالعہ سے محروم ہے جس میں ادب کے قارئین کا کوئی قصور نہیں کیونکہ بقول انجم اعظمی صرف لالو کھیت میں مبلغ پچاس ہزار (کہ نصف جس کے پچیس ہزار ہوئے) شاعر پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ ادب کے ایسے قارئین کی سہولت کے لئے ہم ذیل میں سرشار صدیقی کی ایک نظم درج کر رہے ہیں جوہم نے مجلہ سیپ کے شمارہ نمبر اڑتالیس سے نقل کی ہے :​
حی علی الوصال
عبادت گاہ خلوت میں
تری نظروں کے پر معنی تکلم نے
مرے لب بستہ جذبوں کو زباں دی تھی
تو میں نے آخر شب کے
بہت نازک
بہت نازک
حساس لمحوں میں
تری موج تنفس سے وضو کر کے
ترےمحراب سینے پر
تہجد کی اذاں دی تھی
 

یوسف-2

محفلین
تحریک نفاذِ اردو کے سرپرت اعلیٰ ڈکٹر سید مبین اختر ہر ماہ ایک نشست منعقد کرتے ہیں۔ اسی سنیچر کی شام انہوں نے سرشار صدیقی کے اعزاز میں یہ نشست رکھی تو میں نے شرار تا" اپنی جگہ اسی خاکہ کو بھیج دیا۔:)
 
Top