شجر ممنوعہ کا شاعر
گزشتہ دنوں معروف شاعر اور کالم نویس سرشار صدیقی کے ساتھ ایک شام منائی گئی۔ معروف شاعر حمایت علی شاعر نے اپنا پانچ برس پرانا مضمون "شجر ممنوعہ کا شاعر" پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے اپنے مضمون میں سرشار صدیقی کو "وصل کا شاعر" قرار دیا۔ ایک ہی مضمون میں ایک ہی شاعر کو شجر ممنوعہ کا شاعر اور وصل کا شاعر قرار دینا یقیناً حمایت علی شاعر کا خاصہ ہے۔ اب یہ پڑھنے اور سننے والوں کا فرض ہے کہ وہ "شجر ممنوعہ" اور "وصل" کے مابین رابطہ کی کڑیاں تلاش کریں۔
پروگرام کے میزبان شبنم رومانی نے اپنے ابتدائی کلمات کی طرح اختتامی جملوں میں بھی سرشار صدیقی کی خوب خوب مدح سرائی کی۔ عذر یہ پیش کیا کہ اس قسم کی محفلیں کوئی تنقیدی نشستیں نہیں ہوتیں کہ صاحب شام پر تنقیدی گفتگو کی جائے۔ مگر امراؤ طارق نے اس ہدایت کی پرواہ کئے بٖغیر اپنا مضمون "کامریڈ سرشار صدیقی" پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے کہا کہ سرشار شاعری میں ہر طرح کے احتساب کے باوجود لکھتے رہے۔ نوجوانی میں شاعری تخلص کی آڑ میں کرتے رہے اور سگریٹ چھپ کر پیتے رہے۔ انہوں نے بتلایا کہ سرشار کلکتہ کی سڑکوں پر کمیونسٹ پارٹی کا اخبار بیچتے رہے ہیں اور اس قدر اشتراکی ہونے کے باوجود پور پور مسلمان ہیں کیونکہ انہوں نے مذہب کی کبھی نفی نہیں کی۔ اس کے باوجود انہیں ساری عمر ترقی پسندوں اور اسلام کے ٹھیکیداروں سے بیک وقت لڑائی لڑنی پڑی۔
پروفیسر انجم اعظمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ جب میں نے گریجویشن کی ایک طالبہ سے "وصال" کے بارے میں گفتگو کی تو وہ ناراض ہو گئی۔ کہنے لگی کہ آپ بہت خراب ہیں۔ میں نے اسے بتایا کہ وصال پر تو میر و غالب جیسے بڑے شاعروں نے بھی لکھا ہے۔ سرشار نے بھی وصال پر نظمیں لکھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں لکھنا بھی عبادت ہے اور سرشار چالیس برس سے عبادت کر رہے ہیں۔ انجم اعظمی نے کہا کہ سرشار برا بھی ہے لیکن اس کے باوجود اچھا ہے اس لئے کہ وہ آدمی ہے فرشتہ نہیں۔ اس موقع پر قمر ہاشمی نے "سرشار صدیقی کے نام" ایک نظم سنائی جبکہ برگ یوسفی نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا :
خود اپنی زندگی کے چراغوں کی روشنی
خود اپنی شاعری کا سویرا کہیں اسے
جلسہ سے مہمان خصوصی ابو الخیر کشفی اور صدر نشین ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے بھی خطاب کیا۔ سرشار صدیقی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا (جس کی تصدیق یا تردید کرنے سے فرمان فتح پوری نے انکار کر دیا) کہ آج سے برسوں قبل ڈاکٹر فرمان فتح پوری ہی کی صدارت میں میرے مجموعہ کلام کی تقریب رونمائی ہوئی تھی جو اپنی "نوعیت" کی پہلی تقریب تھی۔ پھر اس کے بعد کتابوں کی تقریب رونمائی کا سلسلہ چل پڑا۔ ویسے ہمارے خیال میں زیر تذکرہ تقریب میں بھی ایک نئی روایت کا آغاز ہوا ہے اور وہ یہ کہ پروگرام کے اختتام پر تمام شرکاء سے درخواست کی گئی کہ وہ جانے سے قبل سرشار صدیقی کے مجموعہ کلام پر دستخط کرتے جائیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ بعد میں کوئی شریک محفل اپنی اس "شرکت" کا انکار نہ کر سکے۔ ویسے ہم نے دیکھا کہ بہت سے شرکاء اس ہدایت پر عمل کئے بغیر ہی رخصت ہو گئے۔ معلوم نہیں کہ انہوں نے ایسا کچھ سوچ سمجھ کر کیا یا یوں ہی ان سے بھول ہو گئی۔