شخصیت کا جائزہ
اے ایس صدیقی
اے ایس صدیقی
پرسنالٹی یعنی شخصیت کی اہمیت کے سبھی معترف ہیں۔ اس کی بناء پر کتنے افراد فوراً دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں۔ انہیں زندگی کی ہر سطح پر پذیرائی ملتی ہے ، جبکہ ایسے ہی کتنے لوگ ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔جنہیں ہم روز دیکھتے ہیں اور سرسری انداز سے دیکھ کر رہ جاتے ہیں۔ انہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ایسی آخر کون سی چیز ہے جو مقناطیسیت کا باعث ہوتی ہے۔ آخر وہ کون سی پر اسرار قوت ہوتی ہے جو ہمارے اندر تحریک پیدا کرتی ہے کہ ہم کسی سے اثر لیں؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ شخصیت کی بات جب کی جاتی ہے تو اس سے دراصل ہماری یہ مراد ہوتی ہے کہ متعدد صفات کسی ایک جگہ جمع ہو گئی ہیں۔
مثلاً ظاہری وجاہت ، صحت ، آواز لب و لہجہ ، گفتگو کا سلیقہ ، اخلاق،نشست و بر خاست کا انداز ، لباس ، وغیرہ۔
کچھ کا کہنا ہے کہ شخصیت دراصل فرد کے اندر سوجھ بوجھ کے عنصر کی موجودگی کا دوسرا نام ہے۔ جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ طبیعت میں کس قدر استحکام۔ کتنا سکون ، کتنا توازن ہے ، وہ کس حد تک یقینی اور اتفاقی معاملات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ کس حد تک دوسروں کا اپنی طرف راغب کر سکتا ہے۔
شخصیت بازی جیتنے والی چیز ہوتی ہے۔ فتح یاب ہونے والی چیز ہوتی ہے۔ مگر یہ سمجھ لینا کہ میرے پاس قد ، نہیں ، یا صحت نہیں یا رنگ نہیں یا صورت نہیں ، لہذا میں کوئی شخصیت نہیں ، ایک غلط سوچ ہے۔حقیقتاً ایک مقناطیسی شخصیت کے لئے ان چیزوں کی اہمیت ثانوی ہوتی ہے۔ بنیادی نہیں۔
نپولین کے پاس قد نہیں تھا۔ وہ ایک چھوٹے قد کا آدمی تھا مگر ایک طاقتور شخصیت تھا۔
لارڈبائرن ایک پیر سے لنگڑا تھا مگر وہ ایک طاقت ور شخصیت رکھتا تھا۔
مثالیں بہت سی ہیں۔ ایک یا چند جسمانی عیوب سے شخصیت کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ کہیں بکتی نہیں کہ خرید لائی جائے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ چند چیزیں شخصیت کو خراب کر دیتی ہیں۔ مثلاً بے تکا لباس، برا اندازِ گفتگو ، نا پسندیدہ اخلاق وغیرہ۔
یہ خیال بھی باطل ہے کہ ہم چٹک مٹک سے یا نمائشی وضع سے اپنی شخصیت کو پر اثر بنا سکتے ہیں۔ چٹک مٹک اور نمائشی وضع ذرا دیر کے لئے اپنی طرف نگاہوں کو راغب تو کر سکتی ہے مگر اچھا تاثر فراہم نہیں کر سکتی۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک بہتر شخصیت کے حصول کے لئے کیا ہر آدمی کے پاس کوئی ذریعہ ہوتا ہے یا نہیں؟
آخر وہ کون کون سی باتیں ہیں جن کے ذریعے کوئی اپنی شخصیت کو بنا سکتا ہے؟
کیا بہتر شخصیت کا حصول بہت مشکل ہے؟
یہ سوالات فوری طور پر ذہن میں ابھرتے ہیں ، ان سوالوں کے جواب میں کہا جاسکتا ہے۔
1۔ بے شک اچھی شخصیت کی تعمیر ہر شخص کر سکتا ہے۔
2۔جی ہاں ، شخصیت کو ابھارنے کے ذرائع موجود ہیں۔
3۔ جی ہاں ، یہ دروازہ ہر شخص کے لئے کھلا ہواہے۔ جو کوئی چاہے اپنی شخصیت میں قوت پیدا کرسکتا ہے۔
تو آئیے چند باتیں اس ضمن میں۔ ان پر توجہ دیں۔ یہاں ہم پھر دہرائیں گے کہ شخصیت کی قوت بہت تھوڑی سی کوشش سے حاصل کی جاتی ہے۔
اس کے لئے پہلے جائزہ لیں ، ایک ایماندارانہ جائزہ کہ آپ کو کون کونسی باتیں نہیں کرنی ہیں۔ پھر یہ طئے کریں کہ آپ کو کیا کرنا ہے۔ پہلا جائزہ آپ کو اپنی منفی صفات سے آگاہ کرے گا۔ یہ صرف چند بھی ہوسکتی ہیں اور زیادہ بھی۔
آپ ابتداء میں لکھی باتوں کو پھر سے دیکھیں۔ ظاہری شکل و صورت کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ قدرت نے آدمی کو جیسا بنایا ہے اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا مگر اسے سنوارنا اور قابلِ قبول بنانا تو آپ کے بس میں ہوتا ہے۔
یہی بات صحت کے ضمن میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ صحت کی بہتری کے ساتھ چہرے میں بھی دلکشی ابھرتی ہے۔
آواز اور لب و لہجے کو بھی بدلنا آدمی کے اختیار میں ہوتا ہے ، دراصل یہ کھیل اس میں شستگی پیدا کرنا ہوتا ہے ، اسکے کھردرے پن کو ہموار کرنا ہر ایک کے اختیار میں ہوتا ہے۔
گفتگو کا سلیقہ لوگوں کو سن کر انکے نقل کرنے سے آسکتا ہے۔
اخلاق آدمی اپناتا ہے اور ترک بھی کر تا ہے۔ یہ کوئی قدرتی چیز نہیں ہوتی۔ اس لئے یہ آپ کے اختیار کا معاملہ ہوتا ہے۔
نشست و برخاست میں خوبی بھی ہوتی ہے اور بے ہودگی بھی۔ یہ معاملہ آپ کی اپنی اپنائی ہوئی روش کا ہے۔ اسے کوئی بھی ترک کر سکتا ہے۔ اور اس کی جگہ اچھی روش اختیار کی جا سکتی ہے۔
لباس کا مسئلہ بھی اسی نوعیت کا ہے۔ بے تکا لباس کیسا ہوتا ہے؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ کامیاب لوگوں کے لباس پر نظر ڈالیں۔ آپ کو اپنے مسئلہ کا حل مل سکتا ہے۔
صفائی ستھرائی کو اپنا معمول بنائیے۔
کتنے چہرے آپ نے دیکھے ہوں گے جو ہر وقت سنجیدہ ، ملول اور خوف زدہ سے نظر آتے ہیں۔ کتنے چہروں سے لا پرواہی ٹپکتی دکھائی دیتی ہے۔انہیں ترک کریں۔
اس ضمن میں ایک ماہر کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کی اتباع کریں جو اس زندگی میں ہمیں کامیاب ، ہردلعزیز اور مقبول نظر آتے ہیں۔
ان کی شخصیت کی ظاہری اور باطنی صفات پر توجہ دیں۔ ان کی نقل کریں۔ اس حد تک کہ ان جیسے نظر آنے لگیں۔ یہ کوئی بری عادت نہیں۔ اچھائی کہیں سے ملے، اسے اپنا لیں ، حتیٰ کہ اپنے دشمن کی شخصیت کے عمدہ پہلو کی نقل کریں۔
ان تمام باتوں سے احتراز کریں جو منفی ہیں۔
آپ کو جلد فرق کا احساس ہوگا۔ شخصیت بنانے کا سارا انحصار خود آپ کی سوچ ، عمل اور لگن پر ہوتا ہے جو لوگ سچ مچ زندگی میں خود کو اہم بنانے کی خواہش رکھتے ہیں وہ عمل کے ذریعے اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
صرف کسی بات کو جان لینے سے کام نہیں چلتا ، معلومات کے مطابق اقدامات کرنا ضروری ہوتا ہے۔ علم عمل کے بغیر ادھورا ہوتا ہے۔ اس نکتے کو نظر انداز نہ کریں۔ اگر آپ نے اس میں کامیابی حاصل کر لی تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ با مراد نہ ہوں۔