احمد محمد
محفلین
السّلام علیکم!
آپ سب اس میں شامل ہو کر ہمارے علم میں اضافہ فرما سکتے ہیں کرنا صرف یہ ہوگا کہ آپ کو ایک شعر کی شرع اور شان نزول بیان کرنی ہوگی۔ بالخصوص وہ اشعار جو کسی خاص واقعہ یا حوالہ کو بیان کرتے ہوں۔
ضروری نہیں کہ صرف اک شعر ہی ہو۔ اگر قارئین کی دلچسی برقرار رہے تو مکمل غزل یا نظم بھی شامل کی جا سکتی ہے۔ لیکن پڑھ کر مزا آنا چاییے۔
مزید یہ کہ کسی کے شامل کردہ مواد میں نقائص کی نشاندہی کرنے کی بجائےآپ اپنے مواد سے اصلاح کر سکتے ہیں۔
یہ پہلی لڑی شامل کر رہا ہوں اور قواعد و ضوابط سے واقفیت بھی نہیں۔ اس لیے انتظامیہ سے گذارش ہے کہ جہاں ضروری سمجھیں اصلاح فرمائیں۔
ابتداء خود ہی کیے دیتاہوں۔۔۔
خودی کو کر بلند اتنا، کہ ہر تقدیر سے پہلے۔۔۔
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا! تیری رضا کیا ہے؟
(حضرت علامہ محمد اقبال)
آپ سب احباب پہلے سے ہی جانتے ہوں گے کہ سیدنا عمرؓ کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح سیّد العالمینﷺ کے حضور، سیدنا صدیق اکبرؓ سے سبقت لے جائیں۔ تو اسی تناظر میں۔۔۔
غالباً غزوہ تبوک کے موقع پر جب مال اسباب جمع کیا جانے لگا تو جب سیدنا عمرؓ نے دل ہی دل میں سوچا کہ میرے پاس مال زیادہ ہے آج میں ابوبکرؓ سے نیکی میں آگے نکل سکتا ہوں۔
چناچہ حضرت عمرؓ نے اپنے گھر کا تمام مال جمع کیا اور دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ گھر چھوڑا اور ایک حصہ حضورﷺ کی خدمت میں لے آئے۔ حضورﷺ خوش ہوئے تو حضرت عمرؓ حضورﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو گئے اور ابوبکرؓ کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔
جب سیدنا صدیق اکبرؓ تشریف لائے تو بدن پر فقط اِک ٹاٹ لِپٹا ہواتھا۔ سید العالمینﷺ نے پوچھا، ابوبکرؓ کیا لائے ہو۔؟ آپ نے عرض کیا، یا رسول اللّٰہﷺ جو تھا لے آیا ہوں۔ حضورﷺ نے پھر استفسار فرمایا، تو گھر کیا چھوڑ کر آئے ہو؟؟؟ قربان جائیں ان کی عظمت پر، عرض کیا کہ بس اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کا نام۔۔!
اس پر عمرؓ نے کہا کہ میں ابوبکرؓ سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔
وہیں موقعہ پر جبرائیلِ امین تشریف لاتے ہیں اور آقاﷺ کے حضور اللّٰہ عزوجل کا پیغام پہنچاتے ہوئے عرض کرتے ہیں کہ اے اللّٰہ کے رسولﷺ! حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں تو اپنے بندہ ( صدیقِاکبرؓ) سے خوش ہوں، آپ میرے بندے ( صدیقِ اکبرؓ) سے پوچھیئے کہ وہ بھی مجھ سے خوش ہے؟؟؟؟
اس عظیم موقعہ کو حضرتِ اقبال نے یوں بیان فرمایا کہ
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے؟
آپ سب اس میں شامل ہو کر ہمارے علم میں اضافہ فرما سکتے ہیں کرنا صرف یہ ہوگا کہ آپ کو ایک شعر کی شرع اور شان نزول بیان کرنی ہوگی۔ بالخصوص وہ اشعار جو کسی خاص واقعہ یا حوالہ کو بیان کرتے ہوں۔
ضروری نہیں کہ صرف اک شعر ہی ہو۔ اگر قارئین کی دلچسی برقرار رہے تو مکمل غزل یا نظم بھی شامل کی جا سکتی ہے۔ لیکن پڑھ کر مزا آنا چاییے۔
مزید یہ کہ کسی کے شامل کردہ مواد میں نقائص کی نشاندہی کرنے کی بجائےآپ اپنے مواد سے اصلاح کر سکتے ہیں۔
یہ پہلی لڑی شامل کر رہا ہوں اور قواعد و ضوابط سے واقفیت بھی نہیں۔ اس لیے انتظامیہ سے گذارش ہے کہ جہاں ضروری سمجھیں اصلاح فرمائیں۔
ابتداء خود ہی کیے دیتاہوں۔۔۔
خودی کو کر بلند اتنا، کہ ہر تقدیر سے پہلے۔۔۔
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا! تیری رضا کیا ہے؟
(حضرت علامہ محمد اقبال)
آپ سب احباب پہلے سے ہی جانتے ہوں گے کہ سیدنا عمرؓ کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح سیّد العالمینﷺ کے حضور، سیدنا صدیق اکبرؓ سے سبقت لے جائیں۔ تو اسی تناظر میں۔۔۔
غالباً غزوہ تبوک کے موقع پر جب مال اسباب جمع کیا جانے لگا تو جب سیدنا عمرؓ نے دل ہی دل میں سوچا کہ میرے پاس مال زیادہ ہے آج میں ابوبکرؓ سے نیکی میں آگے نکل سکتا ہوں۔
چناچہ حضرت عمرؓ نے اپنے گھر کا تمام مال جمع کیا اور دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ گھر چھوڑا اور ایک حصہ حضورﷺ کی خدمت میں لے آئے۔ حضورﷺ خوش ہوئے تو حضرت عمرؓ حضورﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو گئے اور ابوبکرؓ کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔
جب سیدنا صدیق اکبرؓ تشریف لائے تو بدن پر فقط اِک ٹاٹ لِپٹا ہواتھا۔ سید العالمینﷺ نے پوچھا، ابوبکرؓ کیا لائے ہو۔؟ آپ نے عرض کیا، یا رسول اللّٰہﷺ جو تھا لے آیا ہوں۔ حضورﷺ نے پھر استفسار فرمایا، تو گھر کیا چھوڑ کر آئے ہو؟؟؟ قربان جائیں ان کی عظمت پر، عرض کیا کہ بس اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کا نام۔۔!
اس پر عمرؓ نے کہا کہ میں ابوبکرؓ سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔
وہیں موقعہ پر جبرائیلِ امین تشریف لاتے ہیں اور آقاﷺ کے حضور اللّٰہ عزوجل کا پیغام پہنچاتے ہوئے عرض کرتے ہیں کہ اے اللّٰہ کے رسولﷺ! حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں تو اپنے بندہ ( صدیقِاکبرؓ) سے خوش ہوں، آپ میرے بندے ( صدیقِ اکبرؓ) سے پوچھیئے کہ وہ بھی مجھ سے خوش ہے؟؟؟؟
اس عظیم موقعہ کو حضرتِ اقبال نے یوں بیان فرمایا کہ
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے؟