14-15
گرج کر فوراََ دکاندار پر برس پڑے اور اُدھر وہ دکان پر سے اتر پڑا کہ اپنے پورے دام لے لوں گا۔ پورا فتنہ کھڑا ہوگیا۔ مگر ہم نے نہ دام دینے تھے نہ دیئے۔ دوسری جگہ سے مٹھائی خریدی اور کھا کر پان والے کی دکان پر پہنچے۔ یہ پان کی دکان بھی دیکھنے کی لائق تھی۔ پان والا صدر دروازہ کے بائیں طرف قدِ آدم اونچائی پر ایک پاڑ باندھ کر بیٹھا تھا اور دکان کو ایسا سجایا تھاکہ لوگ اسی دکان پر ٹوٹے پڑتے تھے۔ پان والے صاحب اپنے آپ کو نہ معلوم کیا سمجھے ہوئے تھے دکان پر بیسیوں رنگ برنگ بوتلیں اور سجاوٹ کا سامان چنا ہوا بڑی اونچائی تک چلا گیا تھا اور کپڑے کی چھت لگائی تھی۔ جس میں قندیلیں اور قمقمے آویزاں تھے۔ بہت سی تصویریں چاروں طرف لگی تھیں۔ ہاتھ میں پنواڑی صاحب کے ایک قمچی تھی جو وہ ہرایسے لونڈے کے رسید کرتے تھے جو ان کے مچان کے کھمبے کے پاس آتا تھا۔ ہم کو یہ بہت بُرا معلوم ہوا اور ہم نے ان سے کہا کہ ایسا کیوں کرتے ہو تو انہوں نے کہا کہ صاحب وقت رہا نہیں تھا۔یہ بانس کا موٹا کھمبا جس پر مچان رکھا ہوا ہے۔ زمین پر یونہی رکا ہوا ہے۔ اور مجھ کو ڈر ہے کہ کہیں ٹھیس لگ کر ساری دکان نہ آپڑے ہم نے کہا یہ تو زمین میں گڑا ہوا ہے۔ بھلا کیسے گرے گا تو انہوں نے فرمایا کہ صاحب گڑھا کھودنے کا وقت ہی نہ ملا یہ یوں ہی رکھا ہوا ہے اور پھر طرہ یہ کہ مچان کے تختہ میں بندھا بھی نہیں ہے اس وجہ سے مجھ کو بہت اندیشہ ہے۔
اب پان کھا کر ہم نے جو دوستوں کی صلاح کی کہ بھئی بولو کیا رائے ہے اس پان والے کی دکان کیوں نہ گرائی جائے تو اس پر ہمارے کسی ساتھی نے حامی نہ بھری۔ دکان کیا تھی پورا تعزیہ تھا۔ مچان پر بوجہ سامان آرائش تل دھرنے کی جگہ نہ تھی اور مجمع یہاں ایسا تھا کہ پکڑا جانا یقینی تھا۔ مگر ہم نے کہا کہ خواہ کچھ بھی ہو ہم یہ کام ضرور کریں گے۔ ہمارے ساتھیوں نے کانوں پر ہاتھ دھرے۔ ہم نے بھاگنے کی راہ وغیرہ خوب غور سے دیکھی۔ اور گھوم پھر کر اس جگہ پہنچے جہاں احاطہ کی چھوٹی سی کچی دیوار تھی یہ جگہ الگ سی تھی ہم نے ساتھیوں کے ساتھ دو تین گھنٹے سیر کی اور پھر اپنے کام کی طرف متوجہ ہوئے گھومتے پھرتے دکان کے پاس آکر ہم نے ہمت کرکے مجمع کے دباؤ میں کھمبے سے لگ کر جو ڈنڈے کو گھسیٹا تو ایک شوربے ہنگام پیدا ہوا اور دکان معہ چھت اور سامان سجاوٹ اور پان والے اور بوتلوں کے آن پڑی۔کتھے اور چونے کی کُلیاں سب ایک ہوئیں اور غضب یہ ہوا کہ وہ برتن بھی گرا جس میں پان والا پیسے رکھتا جاتا تھا۔ پیسے جو مجمع میں گرے لوگوں نے دست اندازی کردی۔ ہم کو اس میں فرار کا موقع مل گیا اور اس شور و غل میں ہم معہ ساتھیوں کے دیورا پھاند کر گلی میں کود کر اس بری طرح بھاگے کہ نہ معلوم کہاں آنکلے۔ ہم کو سخت اندیشہ پکڑے جانے کا تھا۔ کیونکہ دروازہ پر جو کانسٹیبل تھا اس نے ہم کو شرارت کرتے ہوئے شاید دیکھ لیا اور ہم عجب نہیں پکڑے جاتے۔ اگر کہیں دکان نہ لٹنے لگی ہوتی۔
رات کافی آگئی تھی اور ہم نہ معلوم کس جگہ تھے جہاں نسبتاََ سناٹا تھا۔ جگہ جگہ لوگ چارپائیوں پر سڑک کے کنارے سو رہے تھے۔ ایک لالہ ننگے بدن پلنگ پر عین ایک موڑ پر اس طرح توند پھیلائے لیٹے ہوئے تھے کہ ہم کو مجبوراًً اپنا سیگریٹ جو قریب الختم تھا۔ ان کے پیٹ پر رکھدینا پڑا۔ وہ ایسے