محب علوی
مدیر
کیونکہ اس وقت جو لوگ عمران خان کے طرز تقریر پر پریشان ہوتے ہیں وہ بھٹو کے زمانے میںاس دنیا میں موجود نہیں تھے۔ ہوتے تو شاید تب ان پر بھی اتنی ہی تنقید کرتے۔ دوسری بات یہ کہ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ کسی خاص وقت میں کسی ایک غلط بات کی قبولیت کو بعد میں بھی ایسے ہی طریقہ کار کی لوجک بنا لینا کچھ غلط نہیں ہے؟
میں جو کہنا چاہ رہا تھا وہ یہ تھا کہ بھٹو اب تک پاکستان میں بہترین مقرر رہے ہیں اور جیسی عمدہ تقاریر بھٹو نے کی ہیں اب تک عوامی سطح پر کوئی بھی سیاستدان اس پائے تک نہیں پہنچ سکا ہے مگر جوش خطابت میں کبھی کبھی وہ بھی غلطیاں کر جاتے تھے حالانکہ تقریر کے فن کا ملکہ ان میں بہت زیادہ تھا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کسی بھی شخص کو کیا تقریر سے پہچانتے ہیں ، اس کے طرز گفتگو سے یا اس کے طرز عمل سے۔
اگر آپ کسی شخص کو تقریر اور گفتگو سے پہچان رہے ہیں بالخصوص کسی سیاستدان کو تو پھر میری نظر میں سخت غلطی کر رہے ہیں کیونکہ سیاستدانوں کی پہلی تربیت تقریر اور گفتگو میں مہارت پر ہی مبنی ہوتی ہے ، اعمال اس سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔
میں یہی نکتہ نظر بہت سن رہا ہوں اور میں اس پر اس لیے بھی حیران ہوں کہ بہت سے لوگ صرف یہی دلیل دے رہے ہیں اور جو بنیادی تبدیلی اور دور رس کام کیے ہیں عمران نے اس سے صرف نظر کر رہے ہیں جو کہ انتہائی تکلیف دہ عمل ہے یعنی یہ بات ثابت کر رہے ہیں کہ جو اچھی تقریر کر سکتا ہے یا جس کی خطیبانہ صلاحیتیں اچھی ہیں وہی اچھا شخص ہے۔
عمران کو تقریر کا فن نہیں آتا ، یہ بات میں تو جانتا ہوں کیا اس پر تنقید کرنے والے اس سادہ نکتہ کو نہیں سمجھ پا رہے۔