طارق شاہ
محفلین
غزل
شعاعِ حُسن تِرے حُسن کو چھپاتی تھی
وہ روشنی تھی کہ صُورت نظر نہ آتی تھی
کسے مِلیں، کہاں جائیں کہ رات کالی ہے
وہ شکل ہی نہ رہی ، جو دِیے جلاتی تھی
وہ دن توتھے ہی حقیقت میں عمرکا حاصل
خوشا وہ دن ، کہ ہمیں روز موت آتی تھی
ذرا سی بات سہی ، تیرا یاد آجانا !
ذرا سی بات بہت دیر تک رُلاتی تھی
اُداس بیٹھے ہو کیوں ہاتھ توڑ کر ناصر
وہ نَے کہاں ہے جو تاروں کی نیند اُڑاتی تھی
ناصر کاظمی