ناصر کاظمی :::: شعاعِ حُسن تِرے حُسن کو چھپاتی تھی :::: Nasir Kazmi

طارق شاہ

محفلین


dlq2.jpg


غزل


شعاعِ حُسن تِرے حُسن کو چھپاتی تھی
وہ روشنی تھی کہ صُورت نظر نہ آتی تھی

کسے مِلیں، کہاں جائیں کہ رات کالی ہے
وہ شکل ہی نہ رہی ، جو دِیے جلاتی تھی

وہ دن توتھے ہی حقیقت میں عمرکا حاصل
خوشا وہ دن ، کہ ہمیں روز موت آتی تھی

ذرا سی بات سہی ، تیرا یاد آجانا !
ذرا سی بات بہت دیر تک رُلاتی تھی

اُداس بیٹھے ہو کیوں ہاتھ توڑ کر ناصر
وہ نَے کہاں ہے جو تاروں کی نیند اُڑاتی تھی


ناصر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین
خواب میں اُن سے ملاقات ہوا کرتی تھی
خواب شرمندہِ تعبیر ہوا کرتے تھے۔۔۔

شعلہ سا پیچ وتاب میں دیکھا
جانے کیا اضطراب میں دیکھا

گُل کدوں کے طلِسم بُھول گئے
وہ تماشا نقاب میں دیکھا

آج ہم نے تمام حُسنِ بہار
ایک برگِ گلاب میں دیکھا

سر کھُلے، پابرہنہ، کھوٹے پر
رات اُسے ماہتاب میں دیکھا

فرصتِ موسمِ نشاط نہ پُوچھ
جیسے اِک خواب، خواب میں دیکھا

ناصر کاظمی صاحب

:):)
 
Top