شعرا کے چند لطیفے

انیس جان

محفلین
یہ لطائف شاید محفل میں موجود نہیں ہے
"انشااللہ خان انشا ننگے سر کھانا کھا رہے تھے پیچے سے نواب سعادت علی خان نے ایک چپت رسید کیا اور چپکے ہو گئے،
انشا سمجھ گئے لیکن گردن نیچے کیے نہایت متانت سے بولے اللہ میاں والد مرحوم کی قبر کو ٹھنڈی کرے،
سعادت علی خان نے پوچھا کیا ہے؟ "کہا مجھے اس وقت والد مرحوم کی ایک بات یاد آ گئی" پوچھا کیا بات ؟،کہا کچھ نہیں ! سعادت علی خان نے اصرار کیا
تو انشا بولے کہ والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ننگے سر کبھی کھانا نہ کھاؤ ورنہ. شیطان چپت مارتا ہے
 

سیما علی

لائبریرین
فیروز خان نون کی پہلی بیوی بیگم نون کے نام سے موسوم تھیں۔ جب فیروز خان نون نے دوسری شادی کر لی تو ان کی ایک شناسا نے مولانا سالک سے بطور مشورہ پوچھا، “ اب دوسری بیوی کو کیا کہا جائے گا؟“

مولانا نے بے ساختہ جواب دیا، “آفٹر نون۔“
 

سیما علی

لائبریرین
کسی مشاعرے میں ایک نو مشق شاعر اپنا غیر موزوں کلام پڑھ رہے تھے۔اکثر شعراء آدابِ محفل کو ملحوظ رکھتے ہوئے خاموش تھے لیکن جوش صاحب پورے جوش و خروش سے ایک ایک مصرعے پر دادو تحسین کی بارش کیے جا رہے تھے۔گوپی ناتھ امن نے ٹوکتے ہوئے پوچھا: قبلہ، یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟
جوش صاحب نے بہت سنجیدگی سے جواب دیا: "منافقت" اور پھر داد دینے میں مصروف ہو گئے۔
جوش ملیح آبادی
 

سیما علی

لائبریرین
حاضر جوابی اور بذلہ سنجی میں اکبر الٰہ آبادی بہت شہرت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ان کے ایک دوست نے انھیں ایک ایسی ٹوپی پیش کی جس پر ’’قل ھو اللہ‘‘ کڑھا ہوا تھا، اکبر نے ٹوپی کو دیکھتے ہی کہا، ’’بھئی! بہت عمدہ۔ کسی دعوت میں کھانا ملنے میں دیر ہو جائے تو یہ ٹوپی پہن لو۔ سب سمجھ لیں گے کہ انتڑیاں قل ھو اللہ پڑھ رہی ہیں۔‘‘
 

سیما علی

لائبریرین
ایک اور واقعہ بھی اکبرکی حاضر جوابی اور زبان دانی سے متعلق ہے۔ پنڈت موتی لعل نہرو جو پنڈت جواہر لعل نہرو کے والد تھے ایک بار اکبر الٰہ آبادی سے ملنے ان کے گھر تشریف لے گئے تو گھرکے باہر انھوں نے ’’عشرت منزل‘‘ کی تختی لگی دیکھی، عشرت اکبر الٰہ آبادی کے صاحبزادے تھے۔

پنڈت جی جب اندر آئے تو اکبر سے کہنے لگے ’’بھئی! ہمیں بھی کوئی اچھا سا نام بتاؤ گھر کے لیے۔ آپ نے اپنے گھر کا بہت اچھا نام رکھا ہے۔‘‘ اکبر نے برجستہ کہا ’’پنڈت جی! نئے نام کی کیا ضرورت ہے یہی نام لے لیجیے۔ یعنی عشرت منزل کی جگہ ’’آنند بھون‘‘۔ موتی لعل نہرو کو یہ نام اتنا پسند آیا کہ انھوں نے اپنی رہائش گاہ کا یہی نام رکھ لیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
سوریا سے ایک شاعر اسیر تشریف لائے ۔ قتیل صاحب نے جو ان دنوں پاکستان رائٹرز گلڈ کے سکریٹری تھے ’ان کا استقبال کرتے ہوئے کہا’’پہلی دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ’ اسیر ‘بے زنجیر بھی ہوتے ہیں۔‘‘اس پر اسیرؔ نے برجستہ جواب دیا:

’’میں نے بھی پہلا ’قتیل‘ دیکھا ہے جو قتل ہونے کے بعد بھی زندہ ہے ۔‘‘
 

شمشاد

لائبریرین
چند بے تکلف شعراء میں پیروڈیوں کا ذکر ہورہا تھا ۔ ایک صاحب کہنے لگے ۔

’’پیرو ڈیوں میں اصل لطف یہ ہے کہ اصل شعر میں معمولی سے تصرف کے بعد مزاح پیدا کیا جائے۔‘‘

قتیل شفائی نے یہ سنا تو بولے:

’’میں آپ سے اتفاق کرتاہوں ۔ پیروڈی میں ایک آدھ لفظ کی ترمیم ہی سے نئی بات پیدا کرنی چاہئے ۔ عدم کا ایک شعر ہے ۔

شاید مجھے نکال کے پچھتارہے ہوں آپ

محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں

میں نے اس کی پیرو ڈی یوں کی ہے :

شاید مجھے نکال کے کچھ کھارہے ہوں آپ

محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں
 

سیما علی

لائبریرین
’’حفیظ جالندھری ایک بار ٹرین میں سفر کر رہے تھے ۔۔۔ان کے سامنے والی سیٹ پر ایک صاحب موجود تھے ۔ حفیظ جالندھری مشہور شاعر تھے ۔ان کے دل میں ۔۔۔طلب آئی کہ یہ صاحب مجھے پہچان نہیں رہے ۔۔۔ورنہ خوش ہوتے کہ مشہور شخصیت کے ساتھ سفر کر رہا ہوں ۔۔۔۔
آخر کچھ دیر بعد خود ہی ان سے مخاطب ہوکر ۔۔آہستہ آہستہ اپنا تعارف کرانے کے لئے ۔۔۔اپنا نام بتایا۔۔۔میرانام حفیظ جالندھری ہے ۔۔۔
یہ سنتے ہی ۔۔۔وہ صاحب سیٹ سے اٹھے اور گرمجوشی سے ان کی طرف بڑھے ۔۔۔
حفیظ جالندھری ۔۔۔دل میں خوشی محسوس کر ہی رہے تھے کہ ۔۔۔کہ ان صاحب نے گلے ملتے ہوئے کہا ۔۔۔
’’بڑی خوشی ہوئی ۔۔۔۔۔کہ ۔۔۔۔آپ بھی جالندھر کے ہیں ‘‘
 

سیما علی

لائبریرین
باتیں حفیظ جالندھری کی
حفیظ صاحب کسی کے رعب اور دبدبے میں ہرگز نہیں آتے تھے اور نہ ہی کسی پر چوٹ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیتے۔ سب بڑے بڑوں کو ڈانٹ پلا دیتے۔ سیدضمیر جعفری اور عزیز ملک نے جو حفیظ کے بہت قریب رہے ہیں، مجھے کئی واقعات سنائے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی کو اپنے سے بڑا نہ سمجھتے۔ کسی کی قصیدہ گوئی اور خوشامد کرنا تو درکنار وہ کسی سے جھک کر ملنا بھی کسرِشان سمجھتے۔

چاہے کوئی بہت بڑا سرکاری افسر ہو یا کوئی وزیر، وہ اپنا مقام و مرتبہ اس سے اوپر ہی سمجھتے اور اسی کے مطابق گفتگو کرتے۔ البتہ چھوٹوں سے ان کا رویہ محبت اور شفقت والا ہوتا اور عام آدمی سے برابر کی سطح پر بات کرتے۔

کس میں جرأت تھی جو وزرا سے کرسیاں خالی کرواتا جب خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل تھے تو حیدرآباد میں کُل پاکستان مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ مشاعرے کی صدارت خواجہ ناظم الدین صاحب نے کرنی تھی۔ سیدضمیرجعفری راوی ہیں کہ مشاعرہ گاہ میں جانے سے قبل سبھی شاعر دوسرے ہال میں عشائیے کی دعوت میں جمع تھے۔ کھانے کے بعد سبز قہوے کا دور چلا۔ اتنے میں اعلان ہوا کہ گورنر جنرل تشریف لایا چاہتے ہیں۔ شعرائے کرام سے درخواست کی گئی کہ مشاعرہ گاہ میں تشریف لے جا کر اپنی نشستیں سنبھال لیں۔

جب شعراء جناب حفیظ جالندھری کی قیادت میں مشاعرہ ہال میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ جو کرسیاں سٹیج پر شعرائے کرام کے لیے رکھی گئی ہیں، ان پر وزرائے کرام اور دوسرے سربرآوردہ معززین براجمان ہیں۔ صدر مشاعرہ کی کرسی کے علاوہ اور کوئی خالی نہیں۔

شعراء تو سٹیج کے قریب پہنچ کر رُک گئے مگر حفیظ سیدھے اوپر جا پہنچے اور شعراء کی نشستوں پر قابض وزرائے کرام سے بآوازِبلند فرمایا ’’جناب! یہ کرسیاں خالی کرکے سٹیج سے نیچے تشریف لے جائیں۔‘‘ وہ پہلے تو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ جب حفیظ صاحب نے اپنا مطالبہ دہرایا اور اس اثنا میں کچھ اور شاعر بھی حفیظ صاحب کی اقتدا میں سٹیج پر جا پہنچے تو ان حضرات کو اٹھتے ہی بنی۔ نیچے ہال میں بھی کوئی نشست خالی نہ تھی۔

خیر منتظمین نے دوڑ بھاگ کرکے پہلی قطار کے آگے ایک اور صف لگائی۔ ابھی یہ اکھاڑ پچھاڑ جاری ہی تھی کہ صدر مشاعرہ جناب خواجہ ناظم الدین تشریف لے آئے۔ اس اثنا میں شعرائے کرام اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے۔ سیدضمیرجعفری بتاتے ہیں کہ حفیظ صاحب نے سٹیج پر وزرائے کرام کو عالی جاہ یا سر جیسے الفاظ سے خطاب نہیں کیا اور نہ انھیں ہنستے مسکراتے ہوئے جھک کر سلام کہا۔ اگر وہ کرسیاں خالی نہ کرواتے تو منتظمین مشاعرہ میں سے کسی کی اتنی جرات نہ تھی جو وزیروں کو جا کر کہتا کہ کرسیاں خالی کردیں اور پھر اس پر فوری عمل بھی کرواتا۔

منتظمین میں ہمت اور سلیقہ ہوتا تو وہ پہلے ہی کسی کو سٹیج پر نہ بیٹھنے دیتے اور وزراء کے لیے نیچے پہلی صف میں نشستیں خالی رکھتے۔
 

سیما علی

لائبریرین
حاضر جوابی، بذلہ سنجی اور نکتہ فہمی کے اوصاف جعفری صاحب پر ختم تھے۔ ایک محفل میں وہ، جنرل ضیاالحق اور حفیظ جالندھری یکجا تھے۔ جعفری صاحب کی لفظی پھلجھڑیاں سن کر حفیظ صاحب نے اپنے مخصوص بے تکلفانہ انداز میں کہا ’’اوئے جعفری، جب تُو فوج میں میرا ماتحت تھا، اس وقت تو نِرا بوڑم تھا۔ آج بڑے مزے کی باتیں کررہا ہے!‘‘ جعفری صاحب نے ترکی بہ ترکی جواب دیا ’’سر، یہ سب آپ سے دوری کا فیض ہے۔‘‘ ابوالاثر صاحب اپنا سامنہ لے کر رہ گئے۔ سید ضمیر جعفری کے نزدیک ’’مزاح کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ جو چیز آپ کی طبیعت، آپ کی روح اور آپ کے ذوق میں ایک احساسِ لطافت، احساسِ مسرت اور احساس ِ شگفتگی پیدا کردے، وہ صحیح ظرافت ہے۔ پھر اس ظرافت میں ایک ادبی پہلو اور ایک ذہنی سطح کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ اس سے ایک سلجھا ہوا اور نکھرا ہوا احساس پروان چڑھتا ہے اور یہی احساس زندگی پر دوررس اثر ڈالتا ہے۔‘‘
 

فرخ منظور

لائبریرین
مشاعرے سے پہلے کھانے کی دعوت تھی ۔ زیادہ تر شاعر کھانے سے فارغ ہوکر مشاعرے کے پنڈال میں پہنچ چکے تھے ۔ لیکن مجاز اور جذبی ابھی مصروفِ خورد و نوش تھے ۔ منتظمین میں سے چند لوگوں نے جذبی کے پاس آکر درخواست کی کہ حاضرینِ مشاعرہ نہایت بے چینی سے ان کا انتظار کر رہے ہیں ۔ جذبی نے کہا
بھیا ! ابھی چلتا ہوں ذرا سا رائتہ کھالوں
مجاز اتنی سی بات سنتے ہی ایک دم سنجیدہ ہو کر کہنے لگے ۔
جذبی ! رائتے کے مضمون کو اقبال اپنے ہاں نظم کرتے تو کچھ ایسا کرتے
حیف شاہین رائتہ پینے لگا
اور اختر شیرانی کا مصرع ہوتا
رائتہ جو رخِ سلمٰے پہ بکھر جاتا ہے
اور جوش یوں کہتے
رائتہ کھا کر وہ شاہِ کج کلاہاں آگیا
اور فیض احمد فیض لکھتے
تیری انگشتِ حنائی میں اگر رائتہ آئے
ان گنت ذائقے یلغار کریں مثلِ رقیب
اور میں خود یوں نظم کرتا
بنتِ شب دیگِ جنوں رائتے کی جائی ہو
میری مغموم جوانی کی توانائی ہو
اور تمہیں تو یہی کہنا چاہیئے تھا
ابھی چلتا ہوں ذرا رائتہ کھالوں تو چلوں
 

مقبول

محفلین
فیروز خان نون کی پہلی بیوی بیگم نون کے نام سے موسوم تھیں۔ جب فیروز خان نون نے دوسری شادی کر لی تو ان کی ایک شناسا نے مولانا سالک سے بطور مشورہ پوچھا، “ اب دوسری بیوی کو کیا کہا جائے گا؟“

مولانا نے بے ساختہ جواب دیا، “آفٹر نون۔“
لیڈی وقار النِسا نون (انگلش خاتون) ان کی پہلی بیوی تھیں یا دوسری؟
 

سیما علی

لائبریرین
لیڈی وقار النِسا نون (انگلش خاتون) ان کی پہلی بیوی تھیں یا دوسری؟
وقار النساء نون ساتویں پاکستانی وزیر اعظم فیروز خان نون کی دوسری بیوی ہیں محترمہ کا سابقہ نام وکٹوریہ ریکھی تھا یہ آسٹریا میں پیدا ہوئیں تعلیم و تربیت برطانیہ میں ہوئی۔۔۔۔انہیں وکی نون بھی کہا جاتا ہے.
اُنہوں نے وصیت کی تھی کہ
؀
مجھے غیر سمجھ کر نہ چھوڑ دینا بلکہ میری تدفین بھی ایک کلمہ گو مسلمان کی طرح انجام دینا۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
کسی آریہ نے اپنے مذہب کے متعلق کتاب لکھی۔اور اس کا نام رکھا
‏،،آریہ پرچار،،
‏امام اہلسنت تک جب وہ کتاب آئ توآپ نے سیاہ روشنیائ سے لفظ،،حرف،،بڑھادیا۔

‏ہوگیا

‏،،آریہ پر چارحرف،،
‏یعنی
‏آریہ دھرم پر لعنت۔
‏(حیات ص127 اول)
 

سیما علی

لائبریرین
کسی مشاعرے میں نوح ناروی غزل پڑھ رہے تھے جس کی زمین تھی
‏ “حالات کیا کیا، آفات کیا کیا”
ل
‏جب وہ اپنے ایک شعر کا یہ مصرع اولیٰ پڑھ رہے تھے
‏“یہ دل ہے، یہ جگر ہے، یہ کلیجہ”
‏تو پنڈت ہری چند جلدی سے بولے
‏“قصائی لایا ہے سوغات کیا کیا”
 

مقبول

محفلین
وقار النساء نون ساتویں پاکستانی وزیر اعظم فیروز خان نون کی دوسری بیوی ہیں محترمہ کا سابقہ نام وکٹوریہ ریکھی تھا یہ آسٹریا میں پیدا ہوئیں تعلیم و تربیت برطانیہ میں ہوئی۔۔۔۔انہیں وکی نون بھی کہا جاتا ہے.
اُنہوں نے وصیت کی تھی کہ ؀
مجھے غیر سمجھ کر نہ چھوڑ دینا بلکہ میری تدفین بھی ایک کلمہ گو مسلمان کی طرح انجام دینا۔۔۔۔۔۔
سیما صاحبہ! تفصیلی جواب دینے کے لیے بہت شُکریہ
مجھے اُن کے ہاتھ سے ایک دفعہ انعام لینے کا اعزاز حاصل ہے
بہت عمدہ خاتون تھیں ۔ الّلہ مغفرت فرمائے
 

سیما علی

لائبریرین
لیڈی وقار النِسا نون (انگلش خاتون) ان کی پہلی بیوی تھیں یا دوسری؟
یہ اُنکی دوسری بیوی تھیں ۔۔اپنا نام وکٹوریہ سے وقار النساء نون رکھ لیا انہیں وکی نون بھی کہا جاتا تھا ۔۔۔
بیگم وقار النسا نے ڈھاکہ اور راولپنڈی میں دو سکول قائم کیے جنھیں بعد میں کالج کا درجہ بھی دے دیا گیا۔۔۔۔
اس عظیم خاتون نے جب ایک پاکستانی سے ناتا جوڑا تو اپنا تن من دھن سب اس پر اور اس کی قوم پر قربان کر دیا۔۔۔۔۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
جب احمد فراز کو کسی نے بتایا کہ ضیا الحق شہید ہو گئے تو احمد فراز نے کہا کہ آج سمجھ میں آیا کہ یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔
اُنکی کرم فرمائیوں کی قوم آج تک مقروض ہے۔۔۔
نہ ہیروئن سے نجات ہے ملی اس قوم کو 🥲
نہ کلاشنکوف سے ۔۔
نہ افغان مہاجرین سے ۔۔۔
نہ ہی اُنکی باقیات سے ۔۔۔جو میاں صاحبان کی صورت میں قوم پر مسلط ہیں ۔۔۔
 
Top