شعریات سے متعلق اقتباسات

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
مقدمۂ شعر و شاعری از الطاف حسین حالی بحوالہ شعریات از نصیر ترابی۔

اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ جو شعر زبان یا قلم سے بے ساختہ ٹپک پڑتا ہے وہ اُس شعر سے زیادہ لطیف ہے جو غور و فکر کے بعد آراستہ کیا گیا ہو۔ پہلی صورت کا نام انہوں نے آمد رکھا ہے اور دوسری کا آورد۔ اِس موقع پر وہ یہ مثال دیتے ہیں کہ شیرہ انگور سے پک جانے کے بعد خود بخود ٹپکتا ہے وہ یقیناً اُس شیرے کی نسبت بہتر ہے جو دیر میں تیار ہوتا ہے اور کچے یا ادھ کچے انگور سے نچوڑ کر نکالا جاتا ہے۔ (جبکہ حالی کا کہنا یہ ہے کہ) مستثنیٰ حالتوں کے سوا ہمیشہ وہی شعر زیادہ مقبول، زیادہ لطیف، زیادہ سنجیدہ اور زیادہ مؤثر ہوتا ہے جو کمالِ غور و فکر کے بعد مرتب کیا گیا ہو۔
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ادبیات اور اصولِ نقد از نیاز فتح پوری بحوالہ شعریات از نصیر ترابی۔

اگر ایک شخص اچھا شاعر ہے تو ہم اُسے "سُخن گو" کہتے ہیں۔ لیکن دوسرا، جو شاعر نہیں ہے مگر ذوقِ شعری رکھتا ہے، اُسے "سُخن فہم" کہا جاتا ہے، پھر جس طرح ہر سخن فہم کا سخن گو ہونا ضروری نہیں اُسی طرح ہر سخن گو کا سخن فہم ہونا بھی لازم نہیں ہوتا۔ اِس کی نمایاں ترین مثال ہم میر کو پیش کرتے ہیں کہ یوں تو میر سخن گوئی کے لحاظ سے یقیناً خدائے تغزل ہے لیکن جس وقت وہ خود اپنے اشعار کا انتخاب کرتا ہے تو ہم کو حیرت ہوتی ہے کہ دنیا جن اشعار کو میر کے نشتر سمجھتی ہے وہ خود میر کے نزدیک دل میں پھانس چبھونے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے۔ میں نے قوتِ انتخاب کا یہ نقص اکثر اچھے شعرا میں پایا ہے۔ اشعار کا حق ادا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ گریبان میرا اور ہاتھ آپ کا۔۔۔۔۔ میں خود اپنے ہاتھوں اپنے گریبان کی وسعت اور تنگی کی داد نہیں دے سکتا۔
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
دستِ صبا از فیض احمد فیض بحوالہ شعریات از نصیر ترابی۔

شاعر کو قطرے میں دجلہ دیکھنا ہی نہیں دکھانا بھی ہوتا ہے۔ شاعر کا کام محض مشاہدہ نہیں، مجاہدہ بھی ہے۔ زندگی کے دجلے کا مشاہدہ اس کی بینائی پر ہے، اُسے دوسروں کو دکھانا اُس کی فنی دسترس پر، اُس کے بہاؤ میں دخل انداز ہونا اُس کے شوق کی صلابت اور لہو کی حرارت پر۔۔۔۔۔۔ اور یہ تینوں کام مسلسل جدوجہد چاہتے ہیں۔ شاعر کے مجاہدے کا کوئی نروان نہیں۔۔۔۔ یہ مجاہدہ ایک دائمی کوشش ہے۔ لیکن کوشش کیسی بھی حقیر کیوں نہ ہو زندگی یا فن سے فرار اور شرم ساری پر فائق ہے۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عبدالرؤف صاحب ، اس لڑی میں گڑبڑ ہے ۔ جو تین اقتباسات آپ نے حوالہ جات کے ساتھ اوپر درج کیے ہیں وہ ان کتب میں موجود نہیں ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریریں آپ نے کراچی کے شاعر نصیر ترابی کی کتاب شعریات سے لی ہیں ۔ نصیر ترابی نے اس کتاب میں حرکت یہ کی ہے کہ تنقیدی کتب سے بجائے لفظ بہ لفظ اقتباس لینے کے ان مصنفین کی بات کا مفہوم اپنے الفاظ میں بیان کردیا ہے اور اس میں اپنی تشریح بھی شامل کردی ہے۔ (یعنی جسے انگریزی میں paraphrasing کہتے ہیں ۔) ایسا کرنا کوئی غلط بات نہیں لیکن ایسی صورت میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ یہ فلاں کتاب کا اقتباس ہے ۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ فلاں مصنف نے فلاں کتاب میں اس قسم کی بات کی ہے۔ وغیرہ۔

عبدالرؤف ، حوالہ دینے کا طریقہ یہ ہے:
اگر آپ اصل کتاب سے عبارت دیکھ کر نقل کررہے ہوں تو اس کتاب اور مصنف کا نام بطور حوالہ درج کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ اقتباس آپ اصل کتاب کے بجائے کسی اور مصنف کی تحریر سے دیکھ کر لکھ رہے ہوں تو پھر دونوں کتابوں اور دونوں مصنفین کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔ مثلاً دستِ صبا کے پیش لفظ سے فیض صاحب کا مندرجہ بالا اقتباس یوں دیا جانا چاہیے: دستِ صبا از فیض احمد فیض بحوالہ شعریات از نصیر ترابی ۔ (یعنی فیض سے منسوب یہ تحریر میں نے نصیر ترابی کی کتاب شعریات سے لی ہے ۔) یہ لکھنے کے بعد اقتباس میں موجود کسی بھی غلطی سے آپ بری الذمہ ہوجاتے ہیں ۔ اس غلطی کا الزام اب نصیر ترابی صاحب کے سر ہوگا ۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
عبدالرؤف صاحب ، اس لڑی میں گڑبڑ ہے ۔ جو تین اقتباسات آپ نے حوالہ جات کے ساتھ اوپر درج کیے ہیں وہ ان کتب میں موجود نہیں ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریریں آپ نے کراچی کے شاعر نصیر ترابی کی کتاب شعریات سے لی ہیں ۔ نصیر ترابی نے اس کتاب میں حرکت یہ کی ہے کہ تنقیدی کتب سے بجائے لفظ بہ لفظ اقتباس لینے کے ان مصنفین کی بات کا مفہوم اپنے الفاظ میں بیان کردیا ہے اور اس میں اپنی تشریح بھی شامل کردی ہے۔ (یعنی جسے انگریزی میں paraphrasing کہتے ہیں ۔) ایسا کرنا کوئی غلط بات نہیں لیکن ایسی صورت میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ یہ فلاں کتاب کا اقتباس ہے ۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ فلاں مصنف نے فلاں کتاب میں اس قسم کی بات کی ہے۔ وغیرہ۔

عبدالرؤف ، حوالہ دینے کا طریقہ یہ ہے:
اگر آپ اصل کتاب سے عبارت دیکھ کر نقل کررہے ہوں تو اس کتاب اور مصنف کا نام بطور حوالہ درج کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ اقتباس آپ اصل کتاب کے بجائے کسی اور مصنف کی تحریر سے دیکھ کر لکھ رہے ہوں تو پھر دونوں کتابوں اور دونوں مصنفین کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔ مثلاً دستِ صبا کے پیش لفظ سے فیض صاحب کا مندرجہ بالا اقتباس یوں دیا جانا چاہیے: دستِ صبا از فیض احمد فیض بحوالہ شعریات از نصیر ترابی ۔ (یعنی فیض سے منسوب یہ تحریر میں نے نصیر ترابی کی کتاب شعریات سے لی ہے ۔) یہ لکھنے کے بعد اقتباس میں موجود کسی بھی غلطی سے آپ بری الذمہ ہوجاتے ہیں ۔ اس غلطی کا الزام اب نصیر ترابی صاحب کے سر ہوگا ۔
بہت بہتر۔۔۔ میں آپ کے مشورے کے مطابق مذکورہ مراسلوں میں تدوین کر دیتا ہوں۔
 
آخری تدوین:
Top