شعر برائے اصلاح

Umair Masoodi

محفلین
دامانِ نگاہ تنگ و گلِ حسن تو بسیار !
گل چینِ بہارِ تو ، ز داماں گلہ دارد !

چند سوالات درج ذیل ہیں :
۱ ) یہ شعر کن کا ہے آیا یہ تنہا شعر ہے یا غزل کسی غزل کا حصہ ہے ؟
۲) شعر جس انداز میں مذکور ہے اسی طرح ہے یا اس میں کچھ غلطی ہے ؟
نوٹ : احباب سے گزارش ہے کہ یہ شعر مجھے کہیں لکھنا ہے ، تو جلتنا جلد اس کی تحقیق مل جائے میں شکر گزار رھوں گا ، میں اس بزم کے آداب و قواعد سے کچھ نا بلد سا ہوں اگر خطا ہوگئی ہو تو عفو و درگزر کا فریاد کناں ہوں ! جزاکم اللہ خیر
 
شعر اسی طرح ہے جس طرح مذکور ہے؟
مذکورہ لنک پر اس طرح ہے

دامان نگہ و گل حسن تو بسیار
گل چین بہار تو زد اماں گلہ دارد

اور ایک اس طرح ہے
دامان نگاہ تنگ و گل حسن تو بسیار
گل چین تو از تنگی داماں گلہ دارد
 

Umair Masoodi

محفلین
مذکورہ لنک پر اس طرح ہے

دامان نگہ و گل حسن تو بسیار
گل چین بہار تو زد اماں گلہ دارد

اور ایک اس طرح ہے
جی جزاك الله ، پر اس شعر کے خالق کا نام اور شعر کے کیسا ہے سمجھ نہیں آرھا ہے ، اب سامنے ۲ شعر آگئے ہیں کونسا درست ہے کونسا نا درست ؟ اور فارسی کے اصول کے حساب سے کونسا اس پر برابر اترتا ہے ، تفصیلا جواب عنایت ہوتو عین نوازش ہوگی
 

حسان خان

لائبریرین
اِس مقالے کے مطابق بیت کا متن یہ ہے:
دامانِ نِگه تنگ و گُلِ حُسنِ تو بِسیار
گُل‌چینِ بهارِ تو ز دامان گِله دارد

اِسی مقالے میں مُکمّل غزل کا متن بھی دیا گیا ہے، اور کسی مأخذ کے ذکر کے بغیر اِس غزل کو ملِکہ نورجہان زوجۂ جہانگیر سے منسوب بتایا گیا ہے۔ لیکن میرا گُمان ہے کہ تاریخی لحاظ سے یہ مشکوک ہے، کیونکہ نورجہاں سے جو ابیات اور ادبی قِصّے منسوب کیے گئے ہیں، اُن میں افسانے کا رنگ زیادہ ہے۔ تاریخی طور پر اُن حکایتوں کو قبول کرنے میں مجھے تذبذُب ہے۔ یہی چیز زیب النساء بیگم سے منسوب فارسی دیوان کے بارے میں بھی صادق آتی ہے، کہ کئی مُحقّقوں کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ وہ دیوان اُس تیموری شاہزادی کا نہیں، بلکہ کسی اور 'مخفی' کا ہے، جو بعد میں زیب النساء سے تعلق رکھنے والی حکایتوں کی بِنا پر یہاں زیب النساء بیگم کے نام سے منسوب اور مشہور ہو گیا ہے۔ کسی اور کی فارسی شاعری کو کسی اور سے منسوب کرنے کے لحاظ سے پاکستان اور ہِند کے خِطّے بدنام رہے ہیں۔

بہر حال، نورجہاں کی مادری زبان فارسی تھی، اور وہ تعلیم یافتہ تھی، اِس لیے بعید نہیں کہ وہ شاعرہ بھی ہو، کیونکہ گذشتہ ادوار میں ہر تعلیم یافتہ فرد فنِّ شاعری سے واقف ہوتا تھا۔ فارسی شعر و شاعری سے دل بستگی اُس کو ضرور تھی، اور ایسا میرے نزدیک ثابِت و مُسلّم ہے۔
 
آخری تدوین:

Umair Masoodi

محفلین
اِس مقالے کے مطابق بیت کا متن یہ ہے:
دامانِ نِگه تنگ و گُلِ حُسنِ تو بِسیار
گُل‌چینِ بهارِ تو ز دامان گِله دارد

اِسی مقالے میں مُکمّل غزل کا متن بھی دیا گیا ہے، اور کسی مأخذ کے ذکر کے بغیر اِس غزل کو ملِکہ نورجہان زوجۂ جہانگیر سے منسوب بتایا گیا ہے۔ لیکن میرا گُمان ہے کہ تاریخی لحاظ سے یہ مشکوک ہے، کیونکہ نورجہاں سے جو ابیات اور ادبی قِصّے منسوب کیے گئے ہیں، اُن میں افسانے کا رنگ زیادہ ہے۔ تاریخی طور پر اُن حکایتوں کو قبول کرنے میں مجھے تذبذُب ہے۔ یہی چیز زیب النساء بیگم سے منسوب فارسی دیوان کے بارے میں بھی صادق آتی ہے، کہ کئی مُحقّقوں کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ وہ دیوان اُس تیموری شاہزادی کا نہیں، بلکہ کسی اور 'مخفی' کا ہے، جو بعد میں یہاں زیب النساء بیگم کے نام سے منسوب اور مشہور ہو گیا ہے۔ کسی اور کی فارسی شاعری کو کسی اور سے منسوب کرنے کے لحاظ سے پاکستان اور ہِند کے خِطّے بدنام رہے ہیں۔

بہر حال، نورجہاں کی مادری زبان فارسی تھی، اور وہ تعلیم یافتہ تھی، اِس لیے بعید نہیں کہ وہ شاعرہ بھی ہو، کیونکہ گذشتہ ادوار میں ہر تعلیم یافتہ فرد فنِّ شاعری سے واقف ہوتا تھا۔ فارسی شعر و شاعری سے دل بستگی اُس کو ضرور تھی، اور ایسا میرے نزدیک ثابِت و مُسلّم ہے۔
جزاك الله خيرا ، مكمل متن بھی ارسال فرمادیں ، اور میں حقیقتا فارسی سے نابلد ہوں ، ناچیز کو تھوڑا سا اشکال اس کے متن پر یہ ہے کہ ز داماں گلہ داراد ، اس کا ترجمہ تو یوں ہوا کہ "دامن کا شاکی ہے" . اس میں لفظِ تنگ کا اضافہ کریں گے یا نہیں ، تھوڑی اس پر بھی روشنی ڈالیں. آپ کا ممنون و شاکر رھوں گا
 

حسان خان

لائبریرین
جزاك الله خيرا ، مكمل متن بھی ارسال فرمادیں ، اور میں حقیقتا فارسی سے نابلد ہوں ، ناچیز کو تھوڑا سا اشکال اس کے متن پر یہ ہے کہ ز داماں گلہ داراد ، اس کا ترجمہ تو یوں ہوا کہ "دامن کا شاکی ہے" . اس میں لفظِ تنگ کا اضافہ کریں گے یا نہیں ، تھوڑی اس پر بھی روشنی ڈالیں. آپ کا ممنون و شاکر رھوں گا
"ز دامان گِله دارد" کا مفہوم یہی ہے کہ اُس کو اپنی تنگیِ داماں کا گِلہ ہے، اور اُس کی حسرت ہے کہ کاش دامن زیادہ وسیع ہوتا۔
 

Umair Masoodi

محفلین
جزاك الله خيرا و أحسن جزاء.
ایک اور زحمت کہ آپ وہ پوری نظم کا ترجمہ کردیں ، میرے لیے آسانی ہوگی
 

حسان خان

لائبریرین
فی الحال اِس غزل کے مطلع کا ترجمہ کیا ہے:
از پنجهٔ من چاکِ گریبان گِله دارد
وز گِریهٔ من گوشهٔ دامان گِله دارد

میرے پنجے سے چاکِ گریباں کو گِلہ ہے۔۔۔ اور میرے گِریے سے گوشۂ داماں کو گِلہ ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
سُنبُل به چمن، نافه به چین، مُشک به تاتار
از نَکهتِ آن زُلفِ پریشان گِله دارد

چمن میں سُنبُل کو، چِین میں نافے کو، اور تاتار میں مُشک کو اُس زُلفِ پریشاں کی خوشبو سے گِلہ ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
از بس که به زندانِ غمش دیر بِماندم
زنجیر به تنگ آمد و زندان گِله دارد

میں اُس کے غم کے زندان میں اِتنی زیادہ دیر تک [قید] رہا کہ زنجیر تنگ آ گئی اور زندان کو [مجھ سے] گِلہ ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گه بُت شِکَنم گاه به مسجد زنم آتش
از مذهبِ من گبْر و مُسلمان گِله دارد

گاہے میں بُت توڑتا ہوں، گاہے میں مسجد کو آتش لگاتا ہوں۔۔۔ میرے مذہب سے کافر و مُسلمان کو گِلہ ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
در بزمِ وصالِ تو به هنگامِ تماشا
نظّاره ز جُنبیدنِ مِژگان گِله دارد

تمہاری بزمِ وصال میں تماشا کے وقت نظارے کو پلکوں کی جُنبِش سے گِلہ ہے۔
 
Top