مجھے اس سوال کی توقع تھی، جنابِ
مزمل شیخ بسمل
!
روایتی عروض اور زحافات کے بنیادی حوالوں سے آپ کے ارشادات بالکل بجا ہیں۔ تاہم میں جیسا پہلے عرض کر چکا ہوں، (اور اتفاق سے رات ہی آپ کا عروض والا صفحہ بھی دیکھا) خاص طور پر اِس بحر (زمزمہ) کے حوالے سے۔ میں نے اس پر کسی قدر تفصیل سے بات کی ہے۔ اور متداول شاعری میں حرکات و سکنات کی جو بہت سی تراتیب دیکھنے میں آ رہی ہیں اُن میں پوری پوری غزلیں سامنے رکھ کر اُن کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
میں آپ کے اس احساس سے کلی طور پر متفق ہوں کہ عروض کے کلاسیکی قواعد کا پیروکار یہاں سر پیٹ کر رہ جاتا ہے۔ تو پھر کوئی نہ کوئی ایسا فارمولا تو رہا ہو گا جو ہمیں سہولت کی طرف لے جائے۔ اسی فارمولے کو پانے کوشش ہے، اس کو آپ جس طور بھی دیکھ لیں۔ اپنی ’’عروضی بدعتوں‘‘ کا اعتراف پہلے بھی کر چکا ہوں۔ اسی لئے تو غضنفر کے تتبع میں اس بحر کو ’’بحرِ زمزمہ‘‘ کا نام دیا ہے۔
ہمارا روایتی عروض تو اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ وہاں تو یہ ہے کہ مثال کے طور پر ’’
بحر متقارب مسدس یا مثمن اثرم، مقبوض، محذوف‘‘ ہے اور دوسری ’’بحر متدارک مخبون (بشمول مزید زحافات)‘‘ ہے۔ تسکینِ اوسط کو بھی شامل کر لیجئے تو اِن کا مجموعی حاصل ایک دوسرے سے منطبق نہیں تو بھی بہت قریب ضرور پہنچ جاتا ہے۔ فاعلن کی ع ہٹا دیجئے یا فعولن کی ف، نتیجہ منطبق ہو گیا (دو سببِ خفیف)۔
فاعلن سے جو دو سببِ خفیف ملے اُس کو بحرِ متدارک کی مزاحف صورت کہہ لیجئے، اور فعولن سے ان کے متماثل جو دو سبب خفیف حاصل ہوئے اس کو بحرِ متقارب قرار دے دیجئے۔ اطلاقی سطح دونوں کی ایک ہے۔ اب میں کیا عرض کروں۔