ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
ایک اور پرانی غزل پیشِ خدمت ہے ۔
اُن لبوں تک اگر گیا ہوگا
شعر میرا نکھر گیا ہوگا
ترکِ الفت نہیں تھی خو اُس کی
میری حالت سے ڈر گیا ہوگا
اعتباراُس کے دل سے دنیا کا
جانے کس بات پر گیا ہوگا؟
زہر پینے سے کون مرتا ہے
کوئی غم کام کرگیا ہوگا
پاؤں اٹھتے نہیں دوانے کے
کوئی زنجیر کر گیا ہوگا
برگ جھڑتے ہیں آنسوؤں کی طرح
موسمِ گل گزر گیا ہوگا
کتنا نکلا ہے سخت جاں یہ ضمیر
ہم تو سمجھے تھے مر گیا ہوگا
ناؤ ڈوبے مری زمانہ ہوا
اب تو دریا اُتر گیا ہوگا
تذکرہ میرااُس کی محفل میں
سب کو خاموش کرگیا ہوگا
بازی ہارا ہے کب عدو سے ظہیرؔ
کچھ سمجھ کر ہی ہَر گیا ہوگا
ظہیر احمد ۔۔۔۔۔ ۲۰۰۲
اُن لبوں تک اگر گیا ہوگا
شعر میرا نکھر گیا ہوگا
ترکِ الفت نہیں تھی خو اُس کی
میری حالت سے ڈر گیا ہوگا
اعتباراُس کے دل سے دنیا کا
جانے کس بات پر گیا ہوگا؟
زہر پینے سے کون مرتا ہے
کوئی غم کام کرگیا ہوگا
پاؤں اٹھتے نہیں دوانے کے
کوئی زنجیر کر گیا ہوگا
برگ جھڑتے ہیں آنسوؤں کی طرح
موسمِ گل گزر گیا ہوگا
کتنا نکلا ہے سخت جاں یہ ضمیر
ہم تو سمجھے تھے مر گیا ہوگا
ناؤ ڈوبے مری زمانہ ہوا
اب تو دریا اُتر گیا ہوگا
تذکرہ میرااُس کی محفل میں
سب کو خاموش کرگیا ہوگا
بازی ہارا ہے کب عدو سے ظہیرؔ
کچھ سمجھ کر ہی ہَر گیا ہوگا
ظہیر احمد ۔۔۔۔۔ ۲۰۰۲
آخری تدوین: