بلال جلیل
معطل
شعر پڑھتے ہو جو اَبھی تنہا
شعر لکھو گے تم کبھی تنہا
منزلیں ہجر خلق کرتی ہیں
ہو گئے ہم سفر سبھی تنہا
ایک شمع بجھی اور ایسے بجھی
بزم کی بزم ہو گئی تنہا
سائے برداشت سے بُلند ہُوئے
زَرد پرچھائیں رو پڑی تنہا
دُشمنوں کو بھی رَب دِسمبر میں
نہ کرے ایک پل کو بھی تنہا
ذات کے ’’ہاوِیہ‘‘ میں گرم رہے
برف ، اِحساس پر جمی تنہا
اے فرشتو فلک سے ہو آؤ
مجھ کو رہنے دو ، دو گھڑی تنہا
دونوں مل جل کے کیوں نہیں رہتے؟
موت تنہا ہے ، زِندگی تنہا
آپ کے شَہر میں کوئی نہ کوئی!
کرنے والا ہے خُود کُشی تنہا
داد رِہ رِہ کے اَشک دیتے رہے
رات جب یہ غزل پڑھی تنہا
ساتھ دُنیا کے چل سکے نہ قیس!
کر گئی ہم کو سادَگی تنہا
شہزاد قیس