شعر کا مفہوم

بیدلانہ قسم کا شعر ہے . ناسخ نے خیال بندی کی ہے کہیں کہیں شاید ان کے کسی شعر کا جواب ہو. پشت خمیدہ ہے کمان اور نعرہ ہے تیر. استعارات ہیں. کہتا ہے کہ جب میں اپنی پشت کو خمیدہ دیکهتا ہوں یعنی جب کمان کو جتنا ہو سکتا ہے اتنا خم ہوا دیکهتا ہوں تب نعرہ مارتا ہوں یعنی تیر چهوڑتا ہوں. اس کام میں سارا زور خرچ کرتا ہوں.
( اس عجیب و غریب تشریح کا غلط ہونا عین ممکن ہے )
 

فاتح

لائبریرین
پشتِ خمیدہ دیکھ کے ہوتا ہوں نعرہ زن
کرتا ہوں صرفِ تیر جو زور اس کماں میں ہے
آتش
خواجہ حیدر علی آتش یہاں اپنے بڑھاپے کی حالت کو بیان کر رہے ہیں کہ پشتِ خمیدہ (خم ہوئی یا جھکی ہوئی کمر) کو دیکھ کے صدا لگاتا ہوں۔ یہاں نعرہ زن ہونا بہت خوبصورت انداز میں برتا گیا ہے جس کا مطلب صدا لگانا یا آواز دینا ہوتا ہے اور تکلیف کے اظہار کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے لیکن اگلے مصرع میں اسے تیر اندازی اور کمان کے ساتھ بھی علاقہ ہے۔
دوسرے مصرع میں کمان کو خم زدہ کمر کے استعارے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کمان یعنی خم زدہ کمر میں جو زور باقی ہے وہ تیر میں لگا دیتا ہوں۔ یہاں یہ یاد رہے کہ مجازاً تیر کا ایک مطلب تکلیف بھی ہے اور یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ جو زور اس جھکی ہوئی کمر میں باقی ہے اسے اس تکلیف میں صرف کر دیتا ہوں۔
 

عباد اللہ

محفلین
خواجہ حیدر علی آتش یہاں اپنے بڑھاپے کی حالت کو بیان کر رہے ہیں کہ پشتِ خمیدہ (خم ہوئی یا جھکی ہوئی کمر) کو دیکھ کے صدا لگاتا ہوں۔ یہاں نعرہ زن ہونا بہت خوبصورت انداز میں برتا گیا ہے جس کا مطلب صدا لگانا یا آواز دینا ہوتا ہے اور تکلیف کے اظہار کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے لیکن اگلے مصرع میں اسے تیر اندازی اور کمان کے ساتھ بھی علاقہ ہے۔
دوسرے مصرع میں کمان کو خم زدہ کمر کے استعارے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کمان یعنی خم زدہ کمر میں جو زور باقی ہے وہ تیر میں لگا دیتا ہوں۔ یہاں یہ یاد رہے کہ مجازاً تیر کا ایک مطلب تکلیف بھی ہے اور یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ جو زور اس جھکی ہوئی کمر میں باقی ہے اسے اس تکلیف میں صرف کر دیتا ہوں۔
بہت خوب سر
 

عباد اللہ

محفلین
بیدلانہ قسم کا شعر ہے . ناسخ نے خیال بندی کی ہے کہیں کہیں شاید ان کے کسی شعر کا جواب ہو. پشت خمیدہ ہے کمان اور نعرہ ہے تیر. استعارات ہیں. کہتا ہے کہ جب میں اپنی پشت کو خمیدہ دیکهتا ہوں یعنی جب کمان کو جتنا ہو سکتا ہے اتنا خم ہوا دیکهتا ہوں تب نعرہ مارتا ہوں یعنی تیر چهوڑتا ہوں. اس کام میں سارا زور خرچ کرتا ہوں.
( اس عجیب و غریب تشریح کا غلط ہونا عین ممکن ہے )
خوب کہا ریحان سلامت رہو
 
پشتِ خمیدہ دیکھ کے ہوتا ہوں نعرہ زن
کرتا ہوں صرفِ تیر جو زور اس کماں میں ہے
پشت خمیدہ ہے کمان اور نعرہ ہے تیر. استعارات ہیں. کہتا ہے کہ جب میں اپنی پشت کو خمیدہ دیکهتا ہوں یعنی جب کمان کو جتنا ہو سکتا ہے اتنا خم ہوا دیکهتا ہوں تب نعرہ مارتا ہوں یعنی تیر چهوڑتا ہوں. اس کام میں سارا زور خرچ کرتا ہوں.
خواجہ حیدر علی آتش یہاں اپنے بڑھاپے کی حالت کو بیان کر رہے ہیں کہ پشتِ خمیدہ (خم ہوئی یا جھکی ہوئی کمر) کو دیکھ کے صدا لگاتا ہوں۔ یہاں نعرہ زن ہونا بہت خوبصورت انداز میں برتا گیا ہے جس کا مطلب صدا لگانا یا آواز دینا ہوتا ہے اور تکلیف کے اظہار کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے لیکن اگلے مصرع میں اسے تیر اندازی اور کمان کے ساتھ بھی علاقہ ہے۔
دوسرے مصرع میں کمان کو خم زدہ کمر کے استعارے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کمان یعنی خم زدہ کمر میں جو زور باقی ہے وہ تیر میں لگا دیتا ہوں۔ یہاں یہ یاد رہے کہ مجازاً تیر کا ایک مطلب تکلیف بھی ہے اور یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ جو زور اس جھکی ہوئی کمر میں باقی ہے اسے اس تکلیف میں صرف کر دیتا ہوں۔
بھلا ہو بھلے مانسوں کی تشریحوں کا۔ ہم تو محبوب کی پشت کو خمیدہ جان کر الٹے سیدھے معانی اخذ کرنے لگے تھے! :laughing::laughing::laughing:
 

فرقان احمد

محفلین
پشتِ خمیدہ دیکھ کے ہوتا ہوں نعرہ زن
کرتا ہوں صرفِ تیر جو زور اس کماں میں ہے
صاحب! نعرہ تو عام طور پر حالتِ جنگ میں ہی بلند کیا جاتا ہے، تیر کا ہدف بھی عام طور پر کوئی مخالف یا دشمن ہی ہوتا ہے اس لیے اس شعر کا ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شاعر اپنے دشمنوں کو للکارنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرنا چاہتے ہیں، اس بڑھتی ہوئی عمر میں بھی۔

نوٹ: تشریح پڑھ کر قہقہہ لگانا منع ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
بھلا ہو بھلے مانسوں کی تشریحوں کا۔ ہم تو محبوب کی پشت کو خمیدہ جان کر الٹے سیدھے معانی اخذ کرنے لگے تھے! :laughing::laughing::laughing:
بلا شبہ یہ بھی ایک مطلب بنتا ہے اور اس جانب میرا دھیان نہیں گیا کیونکہ اگر یہ حیدر علی آتش کی بجائے انشا یا جرات وغیرہ کا شعر ہوتا تو اس جانب ہی پہلے سوچتا اور دوسری بات یہ تھی کہ باقی غزل کا مزاج بھی پیری کے دکھ سے متعلق تھا، مثلاً یہ اشعار:
پیری میں شغلِ مے ہے جوانانہ روز و شب
بوئے بہار آتی ہماری خزاں میں ہے

اس دل ربا کے کوچہ میں آگے ہوا سے جائے
اتنی تو جان اب بھی تنِ ناتواں میں ہے

دنیا سے کوچ کرنا ہے اک روز رہ روو
بانگِ جرس سے شور یہی کارواں میں ہے​
 

مقدس

لائبریرین
بلا شبہ یہ بھی ایک مطلب بنتا ہے اور اس جانب میرا دھیان نہیں گیا کیونکہ اگر یہ حیدر علی آتش کی بجائے انشا یا جرات وغیرہ کا شعر ہوتا تو اس جانب ہی پہلے سوچتا اور دوسری بات یہ تھی کہ باقی غزل کا مزاج بھی پیری کے دکھ سے متعلق تھا، مثلاً یہ اشعار:
پیری میں شغلِ مے ہے جوانانہ روز و شب
بوئے بہار آتی ہماری خزاں میں ہے

اس دل ربا کے کوچہ میں آگے ہوا سے جائے
اتنی تو جان اب بھی تنِ ناتواں میں ہے

دنیا سے کوچ کرنا ہے اک روز رہ روو
بانگِ جرس سے شور یہی کارواں میں ہے​
یہ تو نہیں بتایا تھا میں نے آپ کو۔۔۔ سارا غلط بتایا آپ نے
 
Top