شعر کہنے سے باز آؤں کیوں
میں اندھیروں میں لوٹ جاؤں کیوں
اتنی سنجیدہ لگ رہی ہے یہ بزم
سوچتا ہوں کہ مسکراؤں کیوں
کیا مرے واسطے نہیں ہے خوشی
میں فقط اشک ہی بہاؤں کیوں
ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھا رہوں
اپنی قسمت نہ آزماؤں، کیوں ؟
آنے والے دِنوں کا سوچوں کچھ
پچھلی باتوں سے دل جلاؤں کیوں
کچھ تو نزدیکیوں کی آس رکھوں
سب سے ہی دوریاں بڑھاؤں کیوں
نظر آتی ہے جس میں خیر ہی خیر
خود کو اس راہ سے ہٹاؤں کیوں
*****
مدیر کی آخری تدوین: