یہ شعر ایک روایتی متصوفانہ خیال کا شعر ہے جس میں سلوک کے مدارج و منازل اور سالک کے ان سے متعلقہ مجاہدات کی مطابقت سے مضمون آفرینی کا لطف پیدا کیا گیا ہے۔
عمومی طور پر مبتدی سالک کو ابتدا ہی سے مجاہدات میں نفی ذات ِخود اور اقرار ذاتِ حق کی تعلیم دی جاتی ہے اور اس سلسلے میں اپنے اپنے طریقے سے مخصوص ضربیں لگوائی جاتیں ہیں جس سے قلب کا تکدر دور ہوتا ہے اور سالک کا قلب معارف و تجلیات سے مستفید ہونے کا متحمل ہونے لگتا ہے ۔ شاعر یہاں اپنے شعر کی بنیاد ایک اعتراض کی شکل میں پیش کرتا ہے کہ ایسا کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔ جبکہ حق کے مشاہدے کا تو یہ عالم ہے کہ کائنات کے ہر نقش ( یہاں لفظ صور میں و پر زبر ہے اور یہ صورت کی جمع ہے ) میں محبوب حقیقی کے شہود کے جلوے موجود ہیں ۔
دوسرے مصرع کا بیانیہ ذرا گنجلک سا ہے جس میں شاعر وجود اور شہود کے قافیے سے مجبور ہو گیا۔ ورنہ دوسرے مصرع کی معنوی ترتیب یہ تھی کہ ۔نقش صور کا رنگ ہے تیرے شہود میں ۔ تیرے شہود کا رنگ کائنات کی ہر صورت اور نقش میں موجود ہے ۔ اس لیے سالک کو نفی ذات کی کیا حاجت ہے ؟
شعر میں شاعر ایک لطف یوں بھی پیدا کر رہا ہے کہ وہ در پردہ اپنے آپ کو سلوک کی منازل کے اعلی تر درجات پر فائز ہونے کا اشارہ دے کر اک گونہ تعلی کا اظہار بھی کر رہا ہے ۔