شعلے ہی بتیوں میں مقدّر تھے موم کے
شب بوند بوند ٹپکے جو گوہر تھے موم کے
جب تک نگاہ سامنے رکھی تھے آفتاب
دیکھا جو ایک بار پلٹ کر تھے موم کے
آتش سے کھیلنے کا تھا شوقین بادشاہ
حالانکہ سلطنت میں سبھی گھر تھے موم کے
سورج تھا سر پہ، دل میں بلندی کی تھی ہوس
ہوش آیا گرتے وقت مرے پر تھے موم کے
اپنی ہی آرزو کی تپش سے پگھل گئے
ہم لوگ بھی الفؔ کوئی پیکر تھے موم کے
شب بوند بوند ٹپکے جو گوہر تھے موم کے
جب تک نگاہ سامنے رکھی تھے آفتاب
دیکھا جو ایک بار پلٹ کر تھے موم کے
آتش سے کھیلنے کا تھا شوقین بادشاہ
حالانکہ سلطنت میں سبھی گھر تھے موم کے
سورج تھا سر پہ، دل میں بلندی کی تھی ہوس
ہوش آیا گرتے وقت مرے پر تھے موم کے
اپنی ہی آرزو کی تپش سے پگھل گئے
ہم لوگ بھی الفؔ کوئی پیکر تھے موم کے