طارق شاہ
محفلین
غزلِ
اصغر گونڈوی
شعُورِ غم نہ ہو، فکرِ مآلِ کار نہ ہو
قیامتیں بھی گُزرجائیں ہوشیار نہ ہو
وہ دستِ نازجومعْجز نمائیاں نہ کرے
لحد کا پُھول چراغِ سرِ مزار نہ ہو
اُٹھاؤں پردۂ ہستی جو ہو جہاں نہ خراب
سُناؤں رازِ حقیقت، جو خوفِ دار نہ ہو
ہر اِک جگہ تِری برقِ نِگاہ دوڑ گئی
غرض یہ ہے کہ کسی چیز کو قرار نہ ہو
یہ دیکھتا ہُوں تِرے زیرِ لب تبسّم کو
کہ بحرِ حُسن کی اِک موجِ بے قرار نہ ہو
خِزاں میں بُلبُل بیکس کو ڈھونڈ یئے چل کر
وہ برگِ خُشک کہیں زیرِ شاخسار نہ ہو
سمجھ میں برقِ سرِ طُور کِس طرح آئے
جو موجِ بادہ میں ہیجان واِنتشار نہ ہو
دِکھادے بیخودئ شوق، وہ سماں مجھ کو
کہ صبْحِ وصْل نہ ہو، شامِ اِنتظار نہ ہو
نِگاہِ شوق کو یارائے سیر و دِید کہاں
جو ساتھ ساتھ تجلّئ حُسنِ یار نہ ہو
ذرا سی پردۂ محمل کی کیا حقیقت تھی
غبارِ قیس کہیں خود ہی پردہ دار نہ ہو
اصغر گونڈوی