فرخ منظور
لائبریرین
غزل
شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی و کیا مجازی کا
ہر زباں پر ہے مثلِ شانہ مدام
ذکر اُس زلف کی درازی کا
ہوش کے ہاتھ میں عناں نہ رہی
جب سوں دیکھا سوار تازی کا
تیں دکھا کر اُپَس کے مُکھ کی کتاب
علم کھویا ہے دل سوں قاضی کا
آج تیری نگہ نے مسجد میں
ہوش کھویا ہے ہر نمازی کا
گر نہیں راز فقر سوں آگاہ
فخر بے جا ہے فخرِ رازی کا
اے ولی سرو قد کوں دیکھوں گا
وقت آیا ہے سرفرازی کا
(ولی دکنی)
شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی و کیا مجازی کا
ہر زباں پر ہے مثلِ شانہ مدام
ذکر اُس زلف کی درازی کا
ہوش کے ہاتھ میں عناں نہ رہی
جب سوں دیکھا سوار تازی کا
تیں دکھا کر اُپَس کے مُکھ کی کتاب
علم کھویا ہے دل سوں قاضی کا
آج تیری نگہ نے مسجد میں
ہوش کھویا ہے ہر نمازی کا
گر نہیں راز فقر سوں آگاہ
فخر بے جا ہے فخرِ رازی کا
اے ولی سرو قد کوں دیکھوں گا
وقت آیا ہے سرفرازی کا
(ولی دکنی)