طارق شاہ
محفلین
غزلِ
آپ کہیے تو سب بَجا کہیے
کیوں نہ پھر آپ کو خدا کہیے
دوست کہیے نہ آشنا کہیے
ہیں بَضِد ہم سے کُچھ جُدا کہیے
اُن کو کہیے اگر تو کیا کہیے
روگِ دِل کی نہ گر دوا کہیے
دردِ فرقت ہے اب سَوا کہیے
موت یا وہ، رہی دوا کہیے
جان کہتے ہیں، راحتِ جاں بھی !
بڑھ کر اِس سے بھی کیا خدا کہیے
اُن سے کہیے اب اور کیا قاصد
مر رہے ہیں، جو ہیں جُدا کہیے
ہر قدم حشر ہو بَپا جن سے
ہر ادا جن کی اِک سزا کہیے
رَچ گئے ہیں ہماری سانسوں میں
کیسے اُن سے رہیں جُدا کہیے
بِچھڑے سب دوست اُن سے مِلنے پر
اِس رفاقت کو دُھوپ سا کہیے
اِنتہا ہر عَمل میں ٹِھیک نہیں
حُسنِ یکتا کو بھی تو جا کہیے
کیا نصیحت کو، اِک ہمِیں ناصح
کچھ خلِش پر بھی رحم کا کہیے
شفیق خلش