طارق شاہ
محفلین
خزانہ
بارشیں یاد دِلائیں وہ زمانہ میرا
شِیٹ کی دھار کے پانی میں نہانا میرا
سُوکھے پتوں کی طرح تھی نہ کہانی میری
آئی مجھ پرکہ ابھی تھی نہ جوانی میری
دل، کہ محرومئ ثروت پہ بھی نا شاد نہ تھا
لب پہ خوشیوں کے تھے نغمے، کبھی فریاد نہ تھا
پُھول ہی پُھول نظر آتے تھے ویرانے میں
موجزن رنگِ بہاراں سا تھا دیوانے میں
کوئی مذہب کا تھا جھگڑا، نہ عقیدے کا خیال
دل میں تب بُغض تھے لوگوں کے، نہ فرقے کا سوال
اِک عجب پیار و محبّت کا سماں رہتا تھا
ہرعقیدے سے، عقیدت کا سماں رہتا تھا
ڈور کر گھر میں کسی کے بھی چلے جاتے تھے
کوئی آنگن ہو بڑا، اُس میں نہا آتے تھے
گھر کی دیوار سے پیوست وہ لانبا کھمبا
دوست بارش میں نہ بدبخت وہ لانبا کھمبا
لہر بجلی کی جو دیوار میں دوڑاتا تھا
جس کو چُھونے سے عجب مجھ کو مزہ آتا تھا
رفتہ رفتہ مِرے احساس بدلتے ہی گئے
سنگ حالات کے ہر حال میں چلتے ہی گئے
پھر کچھ ایسا ہُوا، سب چھوڑ کے آئے اپنا
بیٹھے پردیس میں لگتا ہے ابھی جو سپنا
عمرِ رفتہ کی طرح بھیگنا ساون کا گیا
ساتھ بچپن کے، مزہ گھر کے وہ آنگن کا گیا
نہ وہ بچپن، نہ وہ آنگن، نہ زمانہ میرا
سب گئے، یادیں رہیں صرف خزانہ میرا
شفیق خلش