شفیق خلش = "خلش ۔۔ بارہا، دل میں خیال آیا، کہ اِس اسمِ تلازُم کو مٹادوں اپنے"

طارق شاہ

محفلین
خلش
بارہا، دل میں خیال آیا، کہ اِس اسمِ تلازُم کو مٹادوں اپنے
سوچ کر پھر یہ بدل ڈالا خیال، کہ اِس سے اک رنج کا
احساس سا رہ جائے گا
یہ جو اک تیز تلاطُم سا ہے ٹہرا دل میں، کیا خبرکیسی یہ یادیں دے کر
دل کی دیواروں میں کر، کرکے شگاف، بہ شکلِ آب
یہ خوں رنگ سا بہہ جائے گا
میں نے کچھ کر کے تیری سمت بڑھا ڈالا ہے
اب جو چاہوں بھی تو کیا اِس کو مٹا سکتا ہوں ؟
اب یہ میرا نہیں، بلکہ ہُوا کام تِرا
مجھ سے تو ہو نہ سکا، تم ہی اسے کر ڈالو
چاہے اوراق بنا لو، یا جلا ڈالو اسے
شفیق خلش
---------------
( نقش پا - جاوداں پبلیکیشنز، کراچی)
 
Top