طارق شاہ
محفلین
غزلِ
شفیق خلش
زیست مُشکل ہے بہت غم کی مِلاوٹ کے بغیر
آ ہی جاتے ہیں کسی طور یہ آ ہٹ کے بغیر
شب رہیں جن سے شبِ وصل، لگاوٹ کے بغیر
چہرے دیکھیں ہیں کبھی اُن کے سجاوٹ کے بغیر
بے بسی رات کی چہروں سے جھلکتی ہے صبح
دن کے آلام اٹھاتے ہیں تراوٹ کے بغیر
رُوح تک جسم کے دردوں کی کسک جاتی ہے
کام دُنیا میں کوئی ہے بھی، تھکاوٹ کے بغیر
وہ، جو مجبوُریِ حالات سے بِک جاتے ہیں !
گھر پُہنچتے ہیں تو سہمے ہُوئے، آہٹ کے بغیر
اے خُدا ! مایہ و زر اُن پہ فراواں کردے
ناؤ بہتی نہیں جن کی بھی رُکاوٹ کے بغیر
اِک نظر اُن پہ بھی شفقت کی، مِرے ربِ کریم
دانہ جن کو نہ میسّر ہو بناوٹ کے بغیر
شفیق خلش