طارق شاہ
محفلین
شاعری !
شفیق خلش
شاعری ساز ہے ، آواز ہے، تصویریں ہیں
جس کی ہر حرف میں رقصاں کئی تعبیریں ہیں
ہیں مناظر لِئے احساس کو چُھوتی سطریں
ایک اِک شعر کی کیا کیا نہیں تفسیریں ہیں
یہ دِکھائے کبھی ہر رات سہانا سپنا
اور کبھی خواب کی اُلٹی لِکھی تعبیریں ہیں
تیغ زن مدِّ مُقابل ہیں عقائِد، تو کہیں
بھائی پربھائی کی کھینچیں ہُوئی تکبیریں ہیں
قید ہیں لوگ کبھی گھر میں خود اپنے، اِس میں
اور کبھی صُبحِ نوآزادی کی تنوِیریں ہیں
دِل دُکھانے یا لُبھانے کو نہیں کیا اِس میں
سر چُھپانے کو نہیں گھر کہیں جاگیریں ہیں
اِس میں گردانا محبّت کو مُصیبت ہے کہیں
اور کہیں پیار محبّت ہی کی تدبیریں ہیں
حُسن مجبُور کہیں ہے، کہیں ظالم اِس میں
پائے عاشق میں کبھی آہنی زنجیریں ہیں
خوش خیالی رہے پڑھ کر کبھی رنجیدہ رہیں
دِل کے قرطاس پہ ایسی کئی تحریریں ہیں
شاعری، وہ نہ اندھیرے کی فقط رات خلش
راہ کی جس میں بُجھی ساری ہی قندیلیں ہیں
شاعری خوب نہ سب کی، نہ بُری ساری خلش
ہے نمایاں کہیں خوبی، کہیں تقصیریں ہیں
شفیق خلش
شفیق خلش
شاعری ساز ہے ، آواز ہے، تصویریں ہیں
جس کی ہر حرف میں رقصاں کئی تعبیریں ہیں
ہیں مناظر لِئے احساس کو چُھوتی سطریں
ایک اِک شعر کی کیا کیا نہیں تفسیریں ہیں
یہ دِکھائے کبھی ہر رات سہانا سپنا
اور کبھی خواب کی اُلٹی لِکھی تعبیریں ہیں
تیغ زن مدِّ مُقابل ہیں عقائِد، تو کہیں
بھائی پربھائی کی کھینچیں ہُوئی تکبیریں ہیں
قید ہیں لوگ کبھی گھر میں خود اپنے، اِس میں
اور کبھی صُبحِ نوآزادی کی تنوِیریں ہیں
دِل دُکھانے یا لُبھانے کو نہیں کیا اِس میں
سر چُھپانے کو نہیں گھر کہیں جاگیریں ہیں
اِس میں گردانا محبّت کو مُصیبت ہے کہیں
اور کہیں پیار محبّت ہی کی تدبیریں ہیں
حُسن مجبُور کہیں ہے، کہیں ظالم اِس میں
پائے عاشق میں کبھی آہنی زنجیریں ہیں
خوش خیالی رہے پڑھ کر کبھی رنجیدہ رہیں
دِل کے قرطاس پہ ایسی کئی تحریریں ہیں
شاعری، وہ نہ اندھیرے کی فقط رات خلش
راہ کی جس میں بُجھی ساری ہی قندیلیں ہیں
شاعری خوب نہ سب کی، نہ بُری ساری خلش
ہے نمایاں کہیں خوبی، کہیں تقصیریں ہیں
شفیق خلش
آخری تدوین: