طارق شاہ
محفلین
شفیق خلش
غزل
صد شُکر ریزہ ریزہ کا خدشہ نہیں رہا
دل ضبط و اعتبار میں خستہ نہیں رہا
کیا خُوب ، رہ سکوںگا نہ تیرے بغیر پل
افسوس جس پہ سچ کا بھی خدشہ نہیں رہا
باتوں سے تیری ذہن ہمارا بنائے پھر
ایسا اب ایک بھی کوئی نقشہ نہیں رہا
افسوس یوں نہیں ہمیں مال ومتاع کا
سوچیں ہماری جان کا صدقہ نہیں رہا
چھانی نہ جس کی خاک وفا کی تلاش میں
ایسا کوئی بھی شہر یا قصبہ نہیں رہا
پھر سے ہمارے دل میں مکیں بن کےآ رہو
ٹوٹے اب اس مکان کو رستہ نہیں رہا
جا تے ہیں اطمینان سے جانا جہاں بھی ہو
جب دل نہیں اثر میں تو رخنہ نہیں رہا
جوش و خروش عشق میں پہلا سا کب خلش
جب فیصلہ ہی تخت یا تختہ نہیں رہا
شفیق خلش
آخری تدوین: