طارق شاہ
محفلین
غزل
شفیق خلش
عالم جنُون خیز ہے، دمساز بھی نہیں
اِک ہم نفس تو کیا ، کوئی آواز بھی نہیں
وہ خامشی بَپا ہے مِری مُشتِ خاک میں
اِک شور حشْر سا بھی ہے، آواز بھی نہیں
حاصل کہاں سے ہونگی تصوّر کی ساعتیں
باقی تخیّلات میں پرواز بھی نہیں
یاد آئے جب بھی اُن کی، تو آنسو اُمڈ پڑیں
وہ ضبط غم پہ، تھا جو کبھی ناز بھی نہیں
' فرزندِ ارجُمند مُحمّد صدیق ہست '
حاصل یہاں وطن کا وہ اعزاز بھی نہیں
دل میں غمِ فِراق نے، چھوڑی نہ نغمَگی
بے ربط دھڑکنیں ہیں کوئی ساز بھی نہیں
بپتا ہم اپنے من کی سُنائیں کِسے خلش
گھٹ گھٹ کے مر رہے ہیں، کہ ہمراز بھی نہیں
شفیق خلش