شفیق خلش -- عالم جنُون خیز ہے، دمساز بھی نہیں

طارق شاہ

محفلین
غزل
شفیق خلش
عالم جنُون خیز ہے، دمساز بھی نہیں
اِک ہم نفس تو کیا ، کوئی آواز بھی نہیں
وہ خامشی بَپا ہے مِری مُشتِ خاک میں
اِک شور حشْر سا بھی ہے، آواز بھی نہیں
حاصل کہاں سے ہونگی تصوّر کی ساعتیں
باقی تخیّلات میں پرواز بھی نہیں
یاد آئے جب بھی اُن کی، تو آنسو اُمڈ پڑیں
وہ ضبط غم پہ، تھا جو کبھی ناز بھی نہیں
' فرزندِ ارجُمند مُحمّد صدیق ہست '
حاصل یہاں وطن کا وہ اعزاز بھی نہیں
دل میں غمِ فِراق نے، چھوڑی نہ نغمَگی
بے ربط دھڑکنیں ہیں کوئی ساز بھی نہیں
بپتا ہم اپنے من کی سُنائیں کِسے خلش
گھٹ گھٹ کے مر رہے ہیں، کہ ہمراز بھی نہیں
شفیق خلش
 

فرخ منظور

لائبریرین
بپتا ہم اپنے من کی سُنائیں کِسے خلش​
گھٹ گھٹ کے مر رہے ہیں، کہ ہمراز بھی نہیں​
کیا بات ہے۔ تمام غزل ہی خوبصورت ہے۔ شکریہ طارق شاہ صاحب!​
 

طارق شاہ

محفلین
بپتا ہم اپنے من کی سُنائیں کِسے خلش​
گھٹ گھٹ کے مر رہے ہیں، کہ ہمراز بھی نہیں​
کیا بات ہے۔ تمام غزل ہی خوبصورت ہے۔ شکریہ طارق شاہ صاحب!​
فرخ صاحب!
انتخاب غزل کی پذیرائی و داد
اور اظہار خیال کے لئے ممنون ہوں !
بہت خوشی ہوئی جو پیش کردہ غزل آپ کو پسند آئی
تشکّر
بہت شاد رہیں
 

نایاب

لائبریرین
بہت اعلی انتخاب
وہ خامشی بَپا ہے مِری مُشتِ خاک میں
اِک شور حشْر سا بھی ہے، آواز بھی نہیں
 

طارق شاہ

محفلین
بہت اعلی انتخاب
وہ خامشی بَپا ہے مِری مُشتِ خاک میں
اِک شور حشْر سا بھی ہے، آواز بھی نہیں
نایاب صاحب!
بہت خوشی ہوئی جو انتخاب آپ کو پسند آیا
اظہارِ خیال اور دادِ انتخاب کے لئے ممنون ہوں

تشکّر
بہت شاداں رہیں
 
Top