شفیق خلش شفیق خلش ::::: میں نے فرطِ شوق میں دی تھی زباں جاتا رہا ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین
غزل
شفیق خلش

میں نے فرطِ شوق میں دی تھی زباں جاتا رہا
ورنہ مِلنے کو کسی سے کب کہاں جاتا رہا

میں لبِ دم تھا غمِ فُرقت میں لاحق وہم سے
جی اُٹھا آنے پہ اُس کے، ہر گُماں جاتا رہا

وہ جو آئے جیسے آئیں زندگی کی رونقیں
'میری تنہا زندگی کا سب نشاں جاتا رہا'

شوق اب بھی جی کو ہیں لاحق وہی پہلے جو تھے
کب بَھلا دِل سے مِرے عِشق بُتاں جاتا رہا

ہے گِلہ یہ وقت سے، مجھ کو ذرا مُہلت نہ دی
حسرتیں روندے مِری نامہرباں جاتا رہا

تھی بہت کوشش کہ اُن کا قُرب ہو حاصِل مجھے
ہر عمل اِس مد میں لیکن رائیگاں جاتا رہا

ہم ہُوئے رُسوا وہاں بھی جس جگہ تھے اجنبی
کون جانے لے کے جُھوٹی داستاں جاتا رہا

اب کہاں بیٹھیں جہاں سے دِید ہو حاصل، خلش!
اُس گلی اپنا بنایا آستاں جاتا رہا

شفیق خلش
 
Top